تحریر: محبوب حسین
انسان کئی طریقوں سے رویے زمین پر بسنے والے مخلوقات کی خدمت اور مدد کرتا ہے، اور انکا شعبہ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، مثلا ڈاکٹر، استاد، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان، بیوروکریٹ، ریلیجس اسکالر، سیکیورٹی نافذ کرنے والے ادارے (فوج، پولیس، سپیشل ادارے) سوشل ورکرز،صحافی برادری وغیرہ۔ ان میں وہ کبھی استاد کے روپ میں بچوں کی احسن طریقے سے پرورش کرتے ہیں،تو کبھی ڈاکٹر بن کے اپنے مریضوں کا مسیحا بن جاتے ہیں، تو کبھی محافظ بن کر بیرونی اور اندرونی سازشوں اور قوتوں کا ڈٹ کے مقابلہ کرتے ہیں، تو کبھی درست فیصلوں سے وطن کا دفاع کرتے ہیں، تو کبھی اپنی زہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف ٹیکنالوجی کو ایجاد کرتے ہیں، اور دوسروں کے لیے آسائش پیدا کرتے ہیں۔ کبھی اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتے ہیں،تو کبھی مایوسی کو خوشی میں بدل دیتے ہیں۔ کبھی تنگی کو راحت میں بدل دیتے ہیں تو کبھی بدحالی کو خوشحالی میں، یہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہر وقت دوسروں کے لیے مسیحا بنے ہوئے ہیں۔
میں اپنی تحریر میں جن پیشوں سے متعلق لوگوں کا زکر کرنے جا رہا ہوں وہ ہیں طبی عملہ، سکیورٹی فورسز اور میڈیا ورکرز. یہ تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ہر وقت چاہئے وہ جنگ کا میدان ہو یا کوئی قدرتی آفت صف اول پہ خدمت خلق میں اپنی زندگی صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ دن ہو یا رات، طوفان ہو یا آندھی، سردی ہو یا گرمی ہمہ وقت ملک، علاقے اور قوم کی سر بلندی کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
جیسا کی حدیث مبارکہ ہے، ”وہ لوگ ہم میں سے نہیں جو دوسروں پر رحم نہیں کرتے ہیں”۔ موجودہ حالات میں ہم طبی ماہرین اور عملہ کے بارے میں بات کرتے ہیں. یہ اپنی زندگی داو پر لگا کے دن رات انسانیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی انسانیت کی خدمت میں اپنی قیمتی زندگی بھی گنوا بیٹھتے ہے۔ ڈاکٹر عثمان ریاض کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جو گلگت میں کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اپنی قیمتی جان گنوا بیٹھا۔
اگر ہم اپنے سکیورٹی فورسز، قانون کے محافظان کی بات کریں تو یہ بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں ہر دم ہر وقت جب بھی قوم پہ مصائب اور مشکلات ان پڑتے ہیں تو ہمارے سکیورٹی ادارے جس میں (فوج، پولیس، سپیشل ادارے ) صف اول ہو کر قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت سے لیکر شاہراہوں کی حفاظت تک ہر وقت چوکس ہیں۔ فوج سول اداروں کے ساتھ ملکر مشکل کی اس گھڑی میں ملک کے کونے کونے میں مدد اور خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک ایسا ادارہ جو ہر وقت ان تمام پیشوں سے متعلق افراد کے بارے میں آگہی اور انکی تعریف اور انکے شانہ بشانہ ہر میدان میں چوکس نظر اتے ہیں وہ ہیں ہمارے مختلف پرننٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خدمت سر انجام دینے والے صحافی ہیں جو ہر وقت نت نئے معلومات اور حقائق کی تلاش اور ان کوا کھٹا کرنے میں رہتے ہیں اور ان سے لوگوں کو آگاہ رکھتے ہیں۔ موجودہ حالات کے بارے میں ہی مثال لے لیں جو میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک حفاظتی تدابیر اور معلومات درست طریقے ہے ہر وقت اپ ٹو ڈیٹ رکھتے ہیں۔
ایک واقعہ میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں جو ڈاکٹروں کے متعلق ہیں. ایک دفعہ ایک ڈاکٹر اپنے ہسپتال میں شدید زخمی مریض کا آپریشن کر رہا تھا کہ اتنے میں گھر سے فون آتا ہے اور نرس کال اٹھاتی ہے اور وہ فون اپنے ڈاکٹر کو تھما دیتی ہے، کیونکہ ڈاکٹر آپریشن میں مصروف ہوتا ہے اور کال موصول نہیں کر سکتا ، دبارہ کال آتی ہے بڑے اسرار سے ڈاکٹر فون موصول کرتا ہے اور ڈاکٹر کو بتایا جاتا ہے کہ آپکے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ آخری سانس لے رہا ہے۔اب ڈاکٹر پریشانی کے عالم میں سوچ میںپڑ جاتا ہے ایک طرف مریض کی جان بھی بچانا ہے دوسرے طرف اپنے بیٹے کی۔ آنکھوں میں خون کے آنسو لیے جب ڈاکٹر اس مریض کا علاج مکمل کر کے آپریشن تھیٹر سے باہر نکلتا ہے اور ڈاکٹر صاحب غم سے نڈھال ہے، اتنے میں آپریشن شدہ لڑکے کی ماں اس ڈاکٹر پہ برس پڑتی ہے وہ یہ سوچ رہی ہوتی ہے کہ شاید میرے بیٹے کا انتقال ہوا وہ غصے سے ڈاکٹر صاحب کا گریبان پکڑ کر چلاتی ہے اور ڈاکٹر دھمی لہجے سے جواب دیتا ہے کہ جایئے آپ کا بیٹا بچ گیا ہے اور وہ زندہ ہے۔ اب مجھ پہ کیا گزرے گی آپ کو کیا معلوم آپ کے بیٹے نے میرے معصوم بیٹے کا جان لیا ہے آپکا بیٹا تو بچ گیا، آپ کے بیٹے کو بجاتے ہوئے میں نے آپنے بیٹے کو گنوایا۔ ڈاکٹر کے سامنے تمام انسان برابر ہو نے چاہئے خواء وہ اس کا اپنا بیٹا ہو یا کوئی دوسرا۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ملک کے محافظان اور پاسبان اپنے اور اپنے خاندان کی زندگی داو پہ لگا کے انسانیت کی خدمت کو اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہر وقت بھوک، پیاس، سردی گرمی کو برداشت کرکے انسانیت کی خدمت میں دن رات چوکس رہتے ہیں، اور مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں بھی اپنے محافظان وطن اور پاسبان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہے، محافظان وطن اور پاسبان وطن کو سرخ سلام ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ” امین”