تحریر: وارث رضا
اے ظلم و جبر کے پالن ہار اور بندوق بردار، یہ نہ سمجھ لینا کہ تمہارے جبڑوں میں دبی صحافت اور اظہار کی آزادی کو چھین کر پابندِ سلاسل کا رسیا، احفاظ الرحمن، چلا گیا ہے۔ وہ گیا نہیں بل کہ جدوجہد کے ایک نئے عزم کے ساتھ نِئی نسل کے صحافیوں میں موجزن با ہمت کھڑا۔ تمہاری بے کسی و لاچارگی سے نمٹنے کا عٙلم نئی صحافی نسل کو دے کر دُور پرے تمہارا انجام دیکھنے واسطے وطن کی ماٹی کو بوسا دینے گیا ہے اور موجود ہے۔ یہی صحافتی نسل احفاظ الرحمٰن اور منہاج برنا بن کر جبر کی ہر قوت سے پنجہ آزما ہو گی۔ سنو تمہارا انجام تاریخ کی دیوار پر لکھ دیا گیا ہے۔
پم اپنی بے روزگاری پر کیوں نوحہ کناں ہوں، کیوں ماتم کریں، ہم آگاہ ہیں کہ اس بے حس اور جنریلی پنجوں تلے سسکتی ریاست میں ہمارے بے روزگار کیے گئے صحافی دوستوں کی تنگ دست آہ زاری کوئی احساس برپا نہ کر پائے گی…؟
کیا ہم صحافت کی خونیں اور جبر سے بھری داستان ہی اپنی نسل کو منتقل کرنے واسطے یادوں کے دریچے کھولے رکھیں گے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ اب ایسا ہونا اور کرنا جموری مارشلائی حکومت کے بس میں نہ رہے گا۔
ریاست کے زمامِ اقتدار کے بونے یاد رکھیں اور نہ بھولیں کہ پاکستان میں جدوجہد اور خون سے سینچی گئی صحافتی آزادی کو وہ اپنے اقتداری نشے کی میخ سے قید نہ کر پائیں گے کہ اب ہماری نئی صحافتی نسل ایک زندہ اور باخبر ذہن کے ساتھ اس کارِ زار کا حصہ ہے۔
نا تواں ہاتھوں میں طاقت ور قلم رکھنے والے یہ نو جوان بہادر صحافی تاریخ کے اوراق میں تمہارے جبر و ستم کو ایسی کھائی میں ڈال دیں گے جہاں سے تمہاری کراہتی چیخیں بھی تمہیں نشانِ عبرت بننے سے نہ روک پائیں گی۔ اسی درس کی پاداش میں تم نے منہاج برنا اور ان کے ساتھیوں کی زبانیں گنگ کرنا چاہیں۔ قید کی کال کوٹھری سے اظہار کی آواز کو جب نہ دبا پائے تو تم نے صحافتی صفوں میں اپنے پالتو جماعتیوں کے ذریعے صحافتی صفوں میں دراڑوں کی میخیں ٹھونکی اور ان کے انتشار کے زہر سے “دستور” کے نام پر صحافت کی صفوں کا بٹوارہ کیا۔ حالاں کہ اسی مقدس دستور کی دھجیوں کے چیتھڑوں سے تم آج تک عوام کے استحصال زدہ حقوق سے چمٹا ہوا لہو نہ دھو پائے ہو۔
تم کو یاد تو ہو گا کہ جب بھی فوجی آمر جنرل ایوب جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے عوام کے اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی تو کہیں تمہیں منہاج برنا کہیں نثار عثمانی تو کہیں احفاظ الرحمن ایسے سرفروشوں کے آہنی اعصاب شل کرنے کی ریاستی کوششیں کرنا پڑیں، مگر ان سرفروشوں نے عوام کے حق اور صحافت کے اظہار پر کبھی نہ سمجھوتا کیا اور نہ ہی تمہاری طاقت کے تلوے چاٹے۔
تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ یہ چھتیس گڑھ میں پیدا ہونے والا مضبوط نظریے کا وہ احفاظ تھا کہ جس نے درس و تدریس سے لے کر صحافت کے میدان میں بھی کردار کی جوت جگائی۔
تم کیا جانو کہ یہ احفاظ الرحمن وہ بے مایہ ناز ہنر مند اور صحافت میں زبان و بیان کا وہ اعلیٰ ترین فرد تھا کہ جس نے نئے صحافی میں صحافت کی جزئیات منتقل کرنے میں زیر زبر پیش تک کی کنی نہیں رہنے دی۔
یہ وہی احفاظ الرحمن ہے جو جنرل ضیاء اور آمر جنرل مشرف کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کے اہلِ صحافت کی ڈھال بنا۔
2007 کی آزادیِ صحافت کی تحریک دوران ریاستی جبر نے جب کراچی پریس کلب پر دھاوا بولا تو احفاظ کی چنگھاڑ سے ریاستی اہل کاروں کے پائے استقامت اکھڑ گئے اور سینکڑوں صحافیوں کو کراچی کے مختلف تھانوں میں بند کر دیا گیا۔ اس دوران میں شاہد حسین اور اشرف خان مارے مارے شہر کے ہر تھانے صحافی دوستوں کی رہائی کی کوششوں میں جت گئے اور آخر میں درخشاں تھانے کلفٹن پر جہاں احفاظ الرحمٰن اور شمیم عالم کے ساتھ دیگر صحافی دوست مقید تھے کو جب یہ خبر امین یوسف نے پہنچائی کہ آپ کی رہائی کا پروانہ جاری کر دیا گیا ہے تو احفاظ الرحمٰن نے تھانے کی سلاخوں سے آزادی حاصل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تمام تھانوں سے میرے صحافی دوستوں کی رہائی نہ ہو گی تو اس وقت تک ہم اب تھانے میں بند رہیں گے۔ اور کسی بھی صورت آمر جنرل مشرف کی صحافت کو تقسیم کرنے کی چال کا حصہ نہ بنے گے۔
اس موقع پر تمام دوستوں نے احفاظ الرحمٰن کو یقین دلایا کہ دیگر تھانوں سے بھی دوستوں کی رہائی شروع ہو چکی ہے۔ مگر احفاظ الرحمٰن اس وقت تک تھانے سے رہا نہ ہوئے جب تک کہ ان کا ایک ایک ساتھی رہا نہ کیا چکا۔
اس کردار کے احفاظ الرحمٰن کے سدھائے صحافی اور نئی نسل ایک نئے عزم کے ساتھ منہاج برنا کی جدوجہد کے نشان احفاظ الرحمٰن کے نقش قدم پر اس بے روزگاری اور معاشی ابتلاء میں بھی اسی استقامت کے جذبے سے کھڑی ہے۔
سو ریاست کی طاقت کے خدا احفاظ الرحمٰن کے سرفروشوں کو آزادی صحافت خاطر معاشی تنگ دستی میں بھی کم از جھکا نہ پائیں گے۔
یہی آج آزادی اظہار اور صحافت کی آزادی کی وہ نوشتۂِ دیوار ہے جس کی ہر اینٹ پر منہاج برنا اور احفاظ الرحمن کندہ ہے۔ یاد رکھا جائے کہ یہ وہ کاروانِ سرفروشاں ہے جسے بندوق لہو لہان تو کر سکتی ہے مگر جھکا نہیں سکتی۔
بشکریہ : ایک روزن