تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ
15 اپریل کو گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے علاقے میں پچھلے تقریبا ایک مہینے سے جاری ہوم لاک ڈاؤن میں نرمی کر کے تعمیرات اور بعض دیگر شعبوں کو اپنے کاروبارشروع کرنےکا فیصلہ کیا گیا ۔ مگر رات گئے یہ فیصلہ واپس لیاگیا یا واپس کروایا گیا، جس سے دل برداشتہ ہو کر وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نےاگلے دن پریس کانفرنس کرکے وزارت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ۔
یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے عوام کی زندگیوں سے متعلق اتنا اہم فیصلہ اتنہائی عجلت میں کیوں کیا اور اگر کابینہ کا لاک ڈاون میں نرمی کا فیصلہ عوامی مفاد میں تھا تو پھر اسے راتوں رات واپس کیوں لیا گیا اور خود وزیر اعلیٰ نے اپنے فیصلے پر اسٹینڈ کیوں نہیں لیا اوریو ٹرن کیوں لیا؟
اس فیصلے سے متعلق جو تلخ حقائق سامنے آ رہے ہیں اسکے مطابق تعمیرات اور بعض دوسرے شعبوں کو اجازت دینے کے پیچھے خود وزیر اعلیٰ اسکے کابینہ کے ارکان و بعض ممبران اسمبلی کے حلقوں میں جاری یا منظور شدہ ترقیاتی سکیموں پہ کام تیز کرانا تھا نیز بعض بڑے ٹھیکیداروں کا دباؤ بھی تھا ۔تاکہ اربوں کے ٹھیکوں سے منافع کمایا جا سکے ۔
آج ہی ڈسٹرکٹ ورکنگ ڈپارٹمینٹ کے اجلاس میں 99 کروڑ روپے کی نئی ترقیاتی اسکیموں کی منظوری سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کا لاک ڈاؤن نرمی کا فیصلہ غریب عوام سے ہمدردی نہیں بلکہ خود وزیر اعلیٰ، وزراء اور ممبران اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا جھانسہ دیکر غریب ووٹروں کو اس سال ہونے والے انتخابات میں ووٹ کیلئے بلیک میل کرنا ہے یہ نام نہاد لیگی حکومت عوام کی کتنی خیر خواہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے جاری لاک ڈاؤن سے ہزاروں اجرتی مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ہزاروں ٹیچروں اور دیگر اسٹاف کو تنخواہیں نہ ملنے سے فاقہ کشی کے شکار ہیں ۔نیز ہزاروں چھوٹے دکاندار ریڈی والوں کا روزگار بند ہو گیا ہے۔ تمام اضلاع میں عدالتیں بند ہونے کی وجہ سے سینکڑوں وکلاء کا روزگار بند ہو گیا ہے نیز پہلے سے موجود ڈھائی لاکھ سے زیادہ بے روزگار اس ہوشربا مہنگائی میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ مگر حکومت کو ان فاقہ کشوں کا کوئی فکر ہی نہیں۔
حکومت کورونا وبا کی ہنگامی بنیادوں پہ روک تھام کیلئے سنجیدہ ہی نظر نہیں آتی۔ اس کا اندازہ علاقے میں ڈسپنسری نما ہسپتالوں میں کورونا وائرس جیسے متعدہی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے مطلوبہ ساز و سامان، ڈاکٹروں ،نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کیلئے ضروری حفاظتی کٹس، ماسکس اور سرجیکل سامان اور ونٹیلیٹرز کی نایابی سے لگایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک ڈاکٹر اور ایک پیرامیڈیکل اسٹاف کورونا وائرس کا شکار ہو کو اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور آج کی خبر ہے کہ گلگت سٹی ہسپتال میں ایک ڈاکٹر تین نرسز اور میڈیکل اسٹاف سمیت 9 افراد کورونا سے متاثر ہوئے ہیں ۔
نیز اسکردو اور نگر میں مقامی افراد جن کا کسی بیرون ملک سفر کا کوئی ریکارڈ نہیں کے اندر کورونا وائرس کی نشاند ی ہو رہی ہے، مگرحکومت کو انسانی جانوں کی کوئی فکر نہیں بلکہ اپنے ٹھیکوں اور ووٹ کیلئے بلیک میل کرنے والی ترقیاتی سکیموں کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ یہی حالت پاکستان میں پی ٹی آئی سرکار کا بھی ہے ۔عمران خان کو بڑے سرمایہ داروں ، ٹھیکیداروں اور تعمیرات کے مافیاز اور اس بہانے کھربوں کا کالا دھن رکھنے والوں کی کالی دولت کو سفید کرانے کی فکر ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ تو یہی بنتا ہے کہ مقامی حکومت اور اسلام آباد کی سرکار فوری طور پران ڈسپنسری نما ہسپتالوں کو فوری طور پہ آپ گریڈ کرکے ہر ضلع میں کم از کم 200 بیڈ کا ایک ہسپتال تعمیر کرے جبکہ گلگت سکردو اور دیامر میں ایک یک بڑے جنرل ہسپتال کم از کم 500 بیڈ کے تعمیر کرے ڈاکٹروں نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید کمی کو پورا کرئے ۔کنٹریکٹ ڈاکٹروں کو مستقل کیا جائے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹرینگ کالج قائم کرے۔ تمام ہسپتالوں کو جدید میڈیکل سازو سامان سے لیس کیا جائے ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال کیلئے کم از کم 50 ونٹیلیٹرز خریدے جائیں انتظامی افسران کے بجائے میڈیکل اسٹاف کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافہ کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے 90 فیصد سے زیادہ باشندے اس وقت فاقہ کشی کا شکار ہیں انہیں ہنگامی بنیادوں پر ریلیف دینے کا انتظام کیا جائے اور انہیں خیراتی اداروں کے رحم و کرم پہ نہ چھوڑا جائے۔
پانچ لاکھ روپے تک کے قرضوں کو معاف کیا جائے اور اس سے بڑے قرضوں پہ سود معاف کیا جائے ایل پی جی گیس رعایتی قیمت پہ مہیا کیا جائے؛ بجلی کے بلوں کو اس سال کے آخر تک نہ لیا جائے شہروں اور بین الاضلاع پبلک ٹرانسپورٹ چلایا جائے؛ گلگت ا سکردو اور اسلام آباد روٹ پہ ہر وقت چلانے کیلئے کم از کم 6 عدد C-130 جہاز خریدے جائیں اور ان روٹس پہ کرایہ مقامی غریب عوام کے استطاعت سے باہر نہ رکھا جائے۔
حکومت کو چاہئے کہ طلباء کیلئے ائیر ٹکٹ پہ پچاس فیصد رعایت دی جائے، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں یا تو معاف کرائیں جائیں یا حکومت خود ادا کرے؛ غریب عوام کی سہولت کیلئے ہر گاؤں میں یوٹیلیٹی اسٹورز کھولے جائیں۔
بیروزگار افراد کو روزگار ملنے تک کم از کم 20 ہزار روپے ماہانہ بیروزگاری الاؤنس کے طور پہ ادا کیا جائے۔
عدالتیں بند ہونے سے متاثر سینکڑوں وکلاء ریلیف دینے کیلئے جی بی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو فلفور کم از کم پچاس کروڑ کا گرانٹ منظور کیا جائے اس مقصد کیلئے غیر ضروری اسکیموں سے فنڈ منتقل کیا جائے دیگر وسائل بھی استعمال میں لایا جائے اور اسلام آباد سرکار سے اس خصوصی پیکیج کیلئے درکار فنڈز حاصل کیا جائے۔
احسان علی ایڈووکیٹ گلگت بلتستان کے سیئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر اور گلگت بلتستان بار کونسل کے وا ئس چیئر میں رہے ہیں۔