تحریر: زمان خان
آج کل ہم سب ایک وباء کا سامنا کر رہے ہیں- ہر کوئی ایک نادیدہ خوف میں مبتلا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد کورونا یعنی موت کا فرشتہ ہر رکاوٹ توڑ کر کسی نہ کسی طریقہ سے آپ تک پہنچ جائے گا اور پھر آپ قسمت کے حوالے ہیں کیونکہ ابھی تک تو اس وباء کا کسی کے پاس علاج نہیں ہے ہماری ذہنی حالت یہ ہے جو کسی نے کہا تھا کہ:
—وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ—
اس جبری نظر بندی کے نفسیاتی اثرات دن بدن گہرے ہوتے جا رہے ہیں کورونا سے تو موت واقعہ ہو جائے گی اور معاملہ ختم ہو جائے مگر ایک دفعہ آپ نفسیاتی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو گئے تو پھر ہر شہر میں قرنطینہ سنڑ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی سنڑ بھی کھولنے پڑیں گے-
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت وقت اور اصلی تے وڈے حکمران ساری قوم کو اس وباء سی نپٹنے کی لئے اکھٹا کرتے لیکن نفاق کو بڑھایا جا رہا ہے اور اس آفت کی آڑ میں ملک دشمن سیاست کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے-
جب سے انسان کو موجودہ وباء کا سامنا ہے تو دانشوروں نے تاریخ میں وبا کے بارے میں لکھے گئے ادب کو ڈھونڈ نکالا ہے-‘وبا کے دنوں میں محبت یا پلیگ، طاعون’-
ہاں توکچھ دوستوں اور جاننے والوں نے وباء کے دنوں میں محبت کا عملی مظاہرہ بھی کرکے نئی مثالیں قائم کردی ہیں- میری مراد ہمارے دوست اور ساتھی نور ظہیر لندن میں سو سالہ جوان سے شادی اور پھر پاکستان میں ثمینہ اور منظرصہبائی کی شادی- ان دونوں جوڑوں کو ہم دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں-
اب ذرا اصل نقطہ کی طرف آتے ہیں- پاکستان قومیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا- مگر بدقسمتی سے ہم نے دیکھا کہ پاکستان بننے کے فورا بعد پاکستان کی اکائیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا- پہلے صوبہ پختونخواء میں ڈاکڑ خان صاحب کی حکومت کو ختم کیا گیا- پھر جب کہا گیا کہ بلوچستان کو صوبہ بنایا جائے تو کہا کہ اس کو گورنر جنرل کے تابع رہنے دیا جائے-پ ھر مشرقی پاکستان میں زبان کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا- بنگالی کو اس کا جائز مقام نہ دیا گیا- پھر بنگالیوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کرکے پیریٹی یعنی دونوں صوبوں میں برابری نافذ کر دی گئی-
گو 1956ء کا آیئن وفاقی تھا مگر جنرل ایوب نے ملک میں مارشل لا لگا کر اس کو ختم کرکے صدارتی طرز حکومت میں بدل دیا-
پھر پاکستان کی اکائیوں کے حقوق کی جنگ یا جدوجہد تیز ہو گئی- کیونکہ یہاں وفاقی اکائیوں کے حقوق پر کوئی مقالہ لکھنا مقصود نہیں صرف اتنا عرض ہے کہ وفاقی اکائیوں کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا-
موجودہ یا نئے پاکستان میں بھی بد قسمتی سے صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا- فوجی حکومت تو ہوتی ہی صدارتی ہے اس میں صوبوں کو حقوق دینے کا تو سوال ہے پیدا نہین ہوتا-
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہاں زیادہ ترصدارتی طرز حکومت رہا ہے اور وفاْقی اکائیوں کے حقوق کبھی بھی مقتدر حلقوں کو ہضم نہیں-ہوئے-
پیپلز پارٹی کی پچھلی سرکار کے بارے میں آپ جو مرضی کہیں مگر اس نی ایک بہت ہی بنیا دی اورعمدہ کام کیا وہ تھا 18ویں آیئنی ترمیم –
یہ بھی شائد خصوصی حالات تھے کہ جن میں یہ منظور ہو گیا. مگر اس دن سے اس ترمیم کے خلاف ہر طرح کا پراپیگنڈہ مختلف ذرائع سے کیا جاتا رہا ہے- پہلے تعلیم کے نام پر اور اب کورونا سے نپٹنے کے نام پر ایک زبردست محاذ کھول دیا گیا ہے- حد تو یہ ہے کہ ہمارے ایک سینیئر ایڈیٹر نے اسے غیر اسلامی بھی قرار دے دیا ہے-
ایک نصاب تعلیم کے بارے میں صرف اتنا عرض ہے کہ اگر ہمت ہے تو وفاقی وزیر تعلیم صرف اسلام آباد کی یونیورسٹیوں کا ایک نصاب بنا کر دکھا دیں-
جہاں تک کورونا سے نپٹنے کا تعلق ہے تو فوج سویلین کی مدد کے لئے ہر صوبے میں موجود ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا-
ہمارے خیال میں اٹھارویں آیئنی ترمیم کا کسی بھی مقدس نام پر خاتمہ کسی بھی صورت میں پاکستان کی لئے مفید نہیں ہوگا بلکہ اس سے پرانے زخم تازہ ہو جائیں گے اور پاکستان کی ریاست کو ناقابل تلافی تقصان ہوگا-