Baam-e-Jahan

جہانگیر بابر کی شینا آزاد نظم "راڇی” کا تنقیدی جائزہ


تحریر: کریم مدد

 

 

 

 

 

 

 

 


شینا شاعری کی بنیاد سمجھے جانے والے "شکاری کے نغمے” (دروچیئ گائیے) اور "دَئنل کے نغمے” (دئنلئی گائیے) شینا میں آزاد نظموں کی نمائندگی کرتے ہیں. گو کہ یہ مخصوص قسم کے نغمے مخصوص موقعوں پہ سُر اور لے میں گائے جاتے ہیں لیکن ان نغموں کو صفحۂ قرطاس پہ اتارنے پہ ان میں آزاد نظموں کے خدوخال پائے جاتے ہیں. اگر میرا یہ دعوی درست ہے تو شینا شاعری کا آغاز آزاد نظموں سے ہوا لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آلاتِ موسیقی اور فنِ گائیکی کی وجہ سے پابند نظموں کا رجحان غالب آگیا اور آزاد نظم ناپید ہوگئی. کسی نجی محفل میں جب میں نے اس نکتے کو بیان کیا تو شینا کے نئے اور شاعری کو سمجھنے والے شاعر جہانگیر بابر نے آزاد نظم کے لوازمات پر سوال کیا. کافی دیر گفت و شنید کے بعد انھوں نے شینا آزاد نظم کے احیا کا بیڑا اٹھایا اور چند دنوں کے بعد "راچی” نام کی آزاد نظم میرے سامنے اس غرض سے پیش کی کہ میں اس کی نوک پلک سنوارنے کے ساتھ ساتھ اس کو اردو میں ترجمہ بھی کر لوں. نظم پڑھ کے مجھے خوشگوار حیرت کے ساتھ دلی مسرت بھی ہوئی کیونکہ یہ نظم فنی وفکری خصوصیات سے مزیّن تھی.

پہلے یہ نظم اردو ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہیں اور پھر اس نظم کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں

راڇی!

بُونَیی را! دروڅَئی،
اَشَنگ آٰیو تُرمَک بَشیل تو
شَرَئی نیت گَݨے
وہ گوٹے جو اِیکھان
پونیچ تَوَہ تھے توم
کچاک کَڑَو تِموجو
گِران دِشے لَنگوجو
کھݨوچ اجَہ یَیوجو
ہیلا ہرایُر بُجُن

سُجی ہرایر اَرو
سُورئی پُومُوکو ݜَرو
آت اوݜَچوکے جو یَر
سُجو پھوپوݜ لُپَرے
تُرمَکیچ چِیئی دُوم تھے
سُجو دُکَھنَہ گِݨی
راڇی پیالی شِلیون

سُجی راڇی پیالی
اَبَش کِھیݨئی رَچھآلی
پَیالَئی سُجی کُݨآلی
وَہ مہرگِن چِنآلی
وَہ کَرے گہ سوبَشیٹ نے ݜُنِین
ہمیش کَڑٶ اُڈَرِین
نَرِئیے پونُچ یَیَرِین
وَس پُل صراط لَنگرِین
کَڈَوَرے کَڈَوَرے شِلیجی مَنَیگی تو
ہو کون شَرَہ لَیِجون
ہِیلا دروُڅ مَنِی جون

مہ گہ دَروڅئی شِیلوک یولی ہَین
مَگَم آسئی رآڇِی پَرولی ہَین
جیک زل دروڅ سے شَرَہ اُڈور تھیون
اے زل ہر مَنوڙوس اَکو اوڈَرِیون
اَکو لَیوک اے کآر تھے
اَبَشِیئی رآڇِی شِلوک ہِین
ہتھی گِن پائی تھوک ہِین
لائی کڇامالیو دوک ہین
نِچو اَکی چمآٹ تھوک ہِین
نَرِیے پونِیے پَیوک ہِین
نِیت سُجی چھوروک ہِین
توم نَفسئی مآری دوک ہِین

توم جِلِیچ اَبش تِموک ہین
کِیے تھے کِھن
سوبَش دِشور کَرے گَہ
شَرَس بَیاک نے چھوریون

ترجمہ: کریم مدد

"شکار کی دیوی”

پَربَتوں کا تاجدار!! شکاری کی بندوق جب اچانک بے چینی سے ہُونکنے لگے
تو مارخور کے شکار کی نیت باندھے
وہ اپنے گھر سے نکل پڑتا ہے
کٹِھن راہوں کو عقیدت سے چومتے
کتنی ہی آزمائشوں سے نبردآزما ہو تے
دشوار گزار ڈھلوانوں کو پھلانگتے
بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکراتے
بِلآخر وہ مخصوص آشیانے (ہَرائی) تک رسائی پاتا ہے

اُس مبارک آشیانے میں
صبح کی پہلی کرن نمودار ہونے سے پہلے
متبرک آگ روشن کرتا ہے
صنوبر کے پاکیزہ دھویں سے اپنی بندوق کی نحوست دور کرتا ہے
پھر دُھونی رَما کے
شکار کی دیوی کو منانے اور جگانے کی سعی کرتا ہے

یہ دیوئ سعید
جو مشکل کی ہر مشکل گھڑی میں پاسبانی کے لیے موجود ہے
کوہ و دمن میں بسیرا کرنے والوں کے ہاتھوں کی عصا ہے
فیاضی و خلوص اور مہر و محبت اُس کی فطرت ہے
لیکن اُس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سہل پسندی اور تن آسانی سے پَرے رہتی ہے
وہ پُر خطر پگڈنڈیوں کی عاشق ہے
پُلِ صراط جیسے صبر آزما اور پُر خار راہوں سے گزارنے کے بعد ہی یہ دیوی جب کسی کو اپنا ہمسفر بنانے کے قابل پاتی ہے
تب جا کے کہیں یہ راضی ہوتی ہے اور پھر مارخور کا شکار ہاتھ لگتا ہے
اور تبھی شکاری نام پاتا ہے

شکاری اور ہماری داستان میں بظاہر کوئی تعلق نہیں
لیکن ہماری دیوی کی حقیقت ایک سی ہے
جس طرح شکاری شکار کےلیے مارا مارا پھرتا ہے
ایسے ہی ہر شخص اپنی کھوج میں مگن ہے

خود کو پانے کے لیے
اپنے وجود کے دشت میں آبلہ پائی, دیوی کو بیدار کیے بغیر ممکن نہیں
اِس دشت میں گر پاؤں ٹوٹ جائیں تو سر کے بل چلنا ہوتا ہے
مسلسل جدو جہد کرنی پڑتی ہے
دم لیے بغیر کوشش جاری رکھنی پڑتی ہے
ویران اور پُرخار رستوں سے گزرنا پڑتا ہے
اپنی نیتوں کو پاکیزہ و منزہ رکھنا ہوتا ہے
اپنے نفس کو تیاگ کر
ہر امتحان اپنی جانِ ناتواں پہ سہنا ہوتا ہے
کیونکہ
مارخور چاہے پربتوں کی بلندیوں کا ہو یا اپنے وجود کی گہرائیوں کا
قابلِ رسا اور ہموار جگہوں میں اپنا آشیاں ہرگز نہیں بناتا

میرے ناقص علم کے مطابق یہ جدید شینا شاعری میں آزاد نظم لکھنے کی پہلی کوشش ہے لیکن فنی و فکری لحاظ سے یہ ایک پختہ نظم ہے. آزاد نظم کے لیے اردو میں جو لوازمات پیش نظر رکھے جاتے ہیں وہ تمام اس نظم بھی پورے کیے گئے ہیں. جُوئے کہسار کی طرح رواں دواں اس نظم کا ذخیرۂ الفاظ قابلِ رشک ہے. شینا کے کومل الفاظ سے سَجی اس نظم میں بُن, درُوچ, ہَرائی, دُکھنہ جیسے الفاظ بھی ہیں جو ماضی میں ہماری زندگی کا لازمی حصہ رہے لیکن نئی نسل کے لیے شاید یہ اجنبی ہیں. خالص شینا لفظوں کے ساتھ ساتھ نیت, پُل صراط, ہمیش اور نفس جیسے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں جو شینا کے تو نہیں لیکن اس حد تک شینا میں گھل مل گئے ہیں کہ غیر نہیں لگتے. پھر بھی ان الفاظ کا متبادل اگر شینا میں موجود ہے تو انہی کو رواج دیا جائے.
شینا امثال, محاورات اور تراکیب کا ایک خزینہ اس نظم میں پایا جاتا ہے. ترمک بشوک, نیت گنوک, اکو اُڈاروک, پھپوش لپاروک, راچی شلوک, ہتھی گِن پائی تھوک اور ماری دوک… جیسی تراکیب کا دلکش استعمال ہوا ہے.

رومی دومالا کی ڈائنا اور یونانی دیومالا سے تعلق رکھنے والی دیوی آرتمیس کو شکاری کی دیوی سمجھا جاتا ہے. اسی سے ملتا جلتا کردار شینا اساطیر میں راچی کے نام سے موجود ہی. یہی کردار اس نظم کا مرکزی کردار ہے. پہاڑی علاقوں میں کارِ شکار کے ساتھ مافوق الفطرت عناصر جُڑے ہوئے ہیں. پُراسراریت کے کئی حالے ہیں جو شکاری اور اس کی مہم جوئی کو گھیرے ہوئے ہیں. اپنی بندوق کو ہمیشہ پاکیزہ جگہ پہ رکھنا, بندوق کے اوپر سے پھلانگنا معیوب سمجھنا, شکار کے لیے مبارک ساعت کا انتظار کرنا, صنوبر کے دھویں سے نحوست دور کرنے کی کوشش کرنا اور شکار کی دیوی راچی کو راضی رکھنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا.. ایسے ہی پر اسرار کام ہیں جن کی کوئی منطق نہیں پائی جاتی لیکن غیر متزلزل یقین رکھا جاتا ہے… یہ نظم ہم کو ہماری دیو مالا سے ہم کنار کرتی ہے جو بہت ہی اہم نکتہ ہے.
نظم کا پہلا حصہ پڑھتے ہوئے قاری چشمِ تصویر سے شکاری کو تمام لوازمات بجا لاتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے. تنقید میں یہ خصوصیت تصویریت کہلاتی ہے. شاعری میں اس خصوصیت کا پایا جانا شاعری کے محاسن میں شامل ہے اور اس نظم میں یہ خصوصیت بدرجۂ اتم موجود ہے. اس پہلے حصے میں قاری محض ایک شاہد کی طرح شکاری کی مہم جوئی سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن جوں ہی نظم کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے تو وہ خود بھی شکاری کی طرح زندگی سے بر سر پیکار نظر آتا ہے. یہاں قاری زندگی کے سفر میں خود کو کھوجنے کے لیے ایسی ہی تگ و دو میں مصروف کار ہے جس طرح شکاری شکار کی تلاش میں… اپنے فن کے ذریعے زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کرنا اور بات ہے لیکن فن کی معراج یہ ہے کہ اس سفر میں درپیش آزمائشوں کے لیے مثبت انداز میں انسان کو تیار کیا جائے. مجھے خوشی ہے کہ شینا کی اولین آزاد نظم میں یہ خصوصیت بھی پائی جاتی ہے.

نوٹ: اردو ترجمے میں راچی کے لیے دیوی لفظ استعمال کیا گیا, ہرائی کے لیے آشیانہ اور دکھنہ کے لیے دھونی رمانا…. شینا اور اردو کے مزاج, ذخیرۂ الفاظ, محاورات و امثال اور اساطیر میں بہت فرق پایا جاتا ہے اس لیے ترجمے کو کامل نہ سمجھا جائے…


کریم مدد گلگت کے ایک مقامی کالج میں اردو ادب کے لیکچرار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے