تحریر: علی احمد جان
وہ مقرر نہیں تھا مگر جیسے ہی وہ سٹیج پر آتا مجمع ہمہ تن گوش ان کو دیکھتا اور ان کے سادہ اور آسان جملوں کو نہ صرف سنتا بلکہ یقین بھی کرتا کہ کہنے والا سچا ہے۔ انہیں بات سے بات نکالنے یا بات کا بتنگڑ بنانے کا فن نہیں آتا تھا مگر سیدھی سچی بات کہنے کو کسی فن یا فنکاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔
سلطان مدد ایک عام آدمی تھا جس کو سکول جانے کا موقع نہیں ملا۔ بچپن اور جوانی بکریاں چراتے گزری۔ اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ پہاڑوں پر اپنی بانسری پر جب سماں باندھتا تھا توایسا محسوس ہوتا تھا کہ برفانی جھیلوں کی پریاں بھی ان کے بجائے ہوئے سر سے سرشار ہورہی ہوں۔
بکریاں چرانا ویسے تو عام سے بات ہے مگر یہ پیشہ شیوہ پیمبری بھی رہا ہے کیونکہ انسان جب بے زبان جانوروں کو پالتا، سدھارتا اور خیال رکھتا ہے تو اس کو بولتے، سنتے سماجی جانوروں یعنی بشر کے ساتھ نبھانے میں مشکل پیش نہیں آتی۔
ایک دن اس نے بکریاں چھوڑ کر ہتھوڑا اٹھایا اور پتھروں سے دیواریں بنانے کا کام کرنا شروع کیا۔ بے زبان جانور پالنے اور سدھارنے والے سلطان مدد نے چٹانوں سے پتھر توڑ کر خوبصورت دیواریں اور مکان بنا نے کا فن سیکھا۔ جس طرح حضرت داؤدؑ خام لوہے کو اوزار کے قالب میں ڈالتے تھے اور اپنی آواز سے دنیا کو مسحور کردیتے تھے یہ سنت سلطان مدد کے حصے میں بھی آئی . وہ پتھروں کو سانچے میں ڈالتا اور اپنی بانسری کی لے پرگردو پیش سسننے والوں کو مسحور کر دیتا تھا۔
گاؤں کے لوگوں نے سلطان مدد کی سچائی، ایمانداری اور خلوص کی وجہ سے میونسپلٹی کے لئے انہیں بلا مقابلہ رکن منتخب کیا تو یہ اس کے لئے یہ ایک نئی دنیا تھی۔ ممبران نے جب میونسپل کمیٹی کا چئیرمین منتخب کرنا تھا تو نگاہ اس ان پڑھ نوجوان پر پڑی جو اپنی سادگی اور سچائی کی وجہ سے سب کے لئے قابل قبول ہی نہیں بلکہ قابل اعتبار بھی تھا۔
ان ہی دنوں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے تھے اور محمد خان جونیجو کو فارغ کرکے مسلم لیگ ن کی تنظیم نو میں مصروف تھے۔ سلطان مدد نے نواز شریف سے ملاقات کی اور مسلم لیگ ن میں نہ صرف شمولیت اختیار کیا بلکہ اپنے ضلع میں اس کی تنظیم سازی کا بھی بیڑا اٹھایا۔ مگر قباحت یہ تھی کہ سلطان مدد کے ضلعے غذر کو منی لاڑکانہ کہا جاتا تھا جہاں پیپلز پارٹی کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کا تصور بھی محال تھا۔ سلطان مدد نے نہ صرف مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی کی بلکہ اگلے انتخابات میں اپنی پارٹی کے امیدوار بھی کھڑے کردئے مگر نواز شریف کی حکومت ختم کی جاچکی تھی۔
12 اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی برطرفی، گرفتاری اور جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ ن تتر بتر ہوگئی اور قدم بڑھاؤ نواز شریف کے نعرے لگانے والے گجرات میں تشکیل ہوئی ‘اصلی مسلم لیگ’ کا حصہ بنے توسلطان مدد مسلم لیگ ن کا پرچم اٹھائے اکیلا اس کے ساتھ کھڑا رہا۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں یہ سیاسی وطیرہ ہے کہ مرکزمیں جس جماعت کی حکومت بنتی ہے تو ان دو خطوں میں بھی انہی کی حکومت بنائی جاتی ہے تاکہ پالیسی میں ہم آہنگی ہو۔ مشرف کے دور میں بننے والی اصلی مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لئے دوڑیں شروع ہوئیں تو سلطان مدد نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ پورے ملک میں مشرف کی طوطی بولتی تھی، انتخابات میں پولنگ بکس سے صرف مشرفی امیدوار ہی کے نام کی پرچیاں نکلتی تھیں. ایسے میں سلطان مدد نے اکیلے گلگت بلتستان اسمبلی کی نشست جیت کر جدہ کے سرور محل میں بیٹھے نواز شریف کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا۔
اس کڑے وقت میں پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے پر نواز شریف نے نہ صرف سلطان مدد کو ٹیلی فون کرکے مبارکباد دی بلکہ ان سے ذاتی طور پر بھی رابطہ استوار کیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے پر جیتے اکیلے امیدوار کو بھی اصلی مسلم لیگ میں شامل کروا کر ن لیگ کا صفایا کرنے کی کو شیشیں بھی عروج پر رہیں۔ نیب کو استعمال کرکے دھونس جمانے کے لئے اس سیدھے سادھے آدمی کے کھاتے میں کچھ نہ نکلا اور وزارت، پیسے اور ٹھیکے دینے کی لالچ بھی کام نہ آئی تو سرکاری ملازمت کرنے والے اس کے بڑے بھائی اور دوسرے رشتے داروں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوششیں بھی سلطان مدد کی اپنے لیڈر کے ساتھ وفاداری کو متزلزل نہ کر سکیں۔
نواز شریف واپس آیا تو اگلے انتخابات کی مہیم کے لئے سلطان مدد کے حلقے میں خود جاکر نہ صرف اس کی وفاداری کی تعریف کی بلکہ اپنی محبت اور اس کے ساتھ دوستی کا یقین بھی دلایا۔ نواز شریف کی جلاوطنی اور حزب اختلاف کے دور میں سلطان مدد کے لئے نہ صرف جاتی امراء کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے بلکہ اس کا درجہ نواز شریف کے ایک سچے وفادار ساتھی کا رہا جو مشرف دور میں ایک چٹان کی طرح اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔
نواز شریف جب تیسری بار بھاری اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بنے تو سلطان مدد نے بھی ایک خواہش کا اظہار کیا کہ ان کو گلگت بلتستان کا گورنر بنا دیا جائے۔ سلطان مدد اپنی تمام تر قربانیوں ں کے عوض صرف تاریخ میں بطور گورنر اپنا نام لکھوانا چاہتا تھا چاہے وہ کچھ مدت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ پنجاب کے قمر الزمان کائرہ اور برجیس طاہر کا نام تختی پر لکھا جا سکتا ہے تو سطان مدد کا نام کیوں نہیں۔ ایک دفعہ گورنر بننے کے بعد واپس گاؤں جاکر اپنے لوگوں میں رہنے کی اس کی خواہش تھی۔
اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف کے ارد گرد لوگ بھی بدل گئے تھے۔ اب یہاں بھی خون دینے والوں کے بجائے چوری کھانے والے مجنون نظر آتے تھے۔ نواز شریف کے جدہ سدھارتے ہی گجرات جاکر اصلی مسلم لیگ کے چھتر سائے پناہ لینے والے معافی تلافی کے بعد واپس آگئے تھے۔ سلطان مدد کو مگر یقین تھا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر قسمیں کھانے والا نواز شریف اس کے ساتھ اپنے وعدوں کو ایفا ضرور کرے گا۔
نواز شریف کے برسر اقتدارآنے کے بعد پہلے ٹیلی فون نہیں اٹھایا گیا پھر جاتی امراء کے دروازے بند ہوئے اور آخر میں خاموش رہنے اور دوبارہ رابطہ نہ کرنے کی نصیحت کے ساتھ رابطہ منقطع کیا گیا۔ دل برداشتہ سلطان مدد کو دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ ہسپتال میں دل کا اپریشن ہوا موت اور زندگی کی کشمکش میں بھی اس کے محبوب راہنما نے خیریت دریافت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
سلطان مدد نے آخری انتخابات میں نہایت بد دلی کے ساتھ حصہ لیا جس میں بقول شخصے اسلام آباد میں بیٹھی نواز شریف کی سرکار کو گلگت بلتستان میں جیتنے کے لئے سلطان مدد جیسے وفاداروں کی نہیں بلکہ اصطبل بدلنے والے گھوڑوں کی ضرورت تھی جو ہر دور میں اہل اقتدار کے لئے دستیاب ہیں۔
اس سال گلگت بلتستان کی اسمبلی کے لئے پھر انتخابات ہونے والے ہیں جس میں گھوڑوں کے اصطبل بدل دیے جائیں گے تاکہ اس جماعت کی حکومت قائم ہو جو مرکز میں بر سراقتدار ہے تاکہ ریاستی پالیسیوں میں ہم آہنگی رہے۔ ان انتخابات سے قبل ہی اپنے اصولوں پر قائم سلطان مدد کا دل کے عارضے میں گلگت سے اسلام آباد کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے انتقال ہوگیا۔
جب بھی سیاست میں وفا کا ذکر آئے گا وہاں سلطان مدد کا نام سر فہرست رہے گا وہاں یہ الزام بھی رہے گا کہ اقتدار کے کھیل میں سچائی، خلوص، وفا اور ایمانداری صرف الفاظ ہوتے ہیں۔
یہ مضمون پہلے ہم سب مگزین میں شائع ہوا تھا.
علی احمد جان کالم نگار اور سیاسی و سماجی مبصر اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں