Baam-e-Jahan

راحت کریم کی افسوس ناک موت کا ذمہ دار کون؟

تحریر: شیر افضل اور فرمان بیگ


محکمہ پانی و بجلی کی مجرمانہ غفلت، ناقص حکمت عملی کی وجہ سے جمعرات 14 مئی کو گوجال سب ڈویژن کے گاؤں خیبر میں ایک نوجوان بجلی کے کرنٹ لگنے سے موت کا شکار ہوا. ڈگری کالج ہنزہ میں ایف ایس سی کاطالب علم راحت کریم گھر کے عقبی صحن میں درخت پر چڑ کے شاخ تراشی میں مصروف تھے کہ ہوا کے ہلانے سے ایک ٹہنی ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائن سے ٹکرا گئی جس سے درخت میں کرنٹ آگئی کرنٹ نے راحت کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا. کرنٹ اتنا شدید تھا کہ راحت کو 20 فٹ اونچے درخت سے نچے پھینک دیا جس سے ان کا موقع پر ہی انتقال ہوا.
اسی طرح کا ایک واقعہ پچھلے سال جون میں بھی ہائے ٹرانسمیشن لائین سے کرنٹ لگنے سے ایک نوجوان مزدور ٹیلی فون لائین بچاتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوکر جان بحق ہوگیا تھا.
یوں تو ۱۹۸۸ء سے اب تک اس طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں لیکن ابھی تک کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے.

اس دردناک واقعہ کا ذمہ دارکون ہے؟

چونکہ عوام نے بطور خاص اس پروجیکٹ کے حوالے سے قبل از وقت ان خطرات اور خدشات سے محکمہ برقیات کے حکام بالا کو آگاہ کر دیا تھا کہ مسگر پاور ہاؤس سے سنٹرل ہنزہ کےلیئے بجلی کی ترسیل کے لیے بچھائی جانے والی ہائی ٹرانسمیشن لائین کو آبادیوں کے بیچ اورگھروں کے چھتوں کے اوپر گزارنے کی بجائےآبادی سے ہٹ کے گزارا جائے. اس علاقے میں لوگ اپنے صحن اور تمام قطعہ اراضی پر درخت آگاتے ہیں یہ ٹرانسمیشن لائن لوگوں کی چھتوں اور صحن کے اوپر سے گزرتی ہے درخت کی ٹہنیاں ان لائنوں کو چھوتی ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت کرنٹ لگنے کا خدشہ رہتا ہے۔

مگر انھوں نے عوام کی ایک نہ سنی. کیونکہ آبادی کے درمیان کی نسبت سائیڈ سے لے جانے میں جو اخراجات ہونے تھے اس کو بچانے اور ٹھیکدار، افسران اور ارباب اختیار کی ملی بھگت سے تنتس ہزار کلو واٹ بجلی کے تاروں کو آبادی کے درمیان گھروں کے چھتوں کے اوپر سے گزارا گیا. اس پر ستم یہ کہ اس ٹرانسمیشن لائین کو گزار نے کےلیے جو کھمبے نصب کئے گئے ہیں وہ انتہائی ناقص مٹیریل سے تیار شدہ ہے جو تنتس ہزار کلوواٹ بجلی کی ترسیل کے قابل نہیں جو کسی بھی وقت اس سے بڑا حادثہ کا سبب بن سکتا ہے.

سرکاری ادارے عوام کے ان چھوٹے چھوٹے قطعئہ اراضی پر زبردستی بغیر معاوضے کے قبضہ کرکے استمعال کرتے ہیں. اگر اسی طرح یہ قبضہ گری جاری رہا تو نہ جانے اور کتنے حادثات ہوں گے. اور مقامی لوگ اپنے معاشی ضرویات کیسے پورا کریں گے. لیکن سرکاری محمکے کے افسران کو عوام کے مسائل اور ضرورتوں سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔ ان کی نو ابادیاتی ذہنیت اورنوکرشاہانہ مزاج میں عوام دشمنی اور ان کو اذیت اور نقصان پہنچانا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتاہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف عوام کو مالی نقصان اٹھنا پڑتا ہے بلکہ کبھی کھبار اس طرح کے جانی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.

علاوہ ازین محکمہ برقیات ہنزہ کے عوام دوشمن پالیسی کی وجہ سے خیبر میں تعمیر شدہ بجلی گھر کا دوسرا فیز کے اضافی اخراج ہونے والے پانی کے زمین غریب عوام سے بغیر معاوضہ حاصل کیا گیا. زمینوں کا کٹاؤ اور بجلی گھر کے لیے تعمیر شدہ چینل میں آئے روز مال مویشیوں کے گر جاتے ہیں۔

ان تمام تر نقصانات اور بغیر معاوضہ حاصل کی گئی اراضی سے قطعہ نظر جن کے جواں سال بچے محکمہ کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے اپنے جان کھو چکاہے اس کا ازالہ کون کریں گا؟

یاد رہے پیچلے سال کراچی میں ایک بچہ اسی طرح بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوا تھا. اس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور K-الیکٹرک کو  حکم دیا کہ وہ متوفی کے والدین کو بھاری معاوضہ  ادا کرے.

محکمہ برقیات ایک سفید ہاتھی

واضع ہو کہ بجلی کے اسکیموں پر خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود ضلع ہنزہ کے عوام آج بھی اس اہم بنیادی ضرورت سے محروم ہیں.

نیز خیبر پاؤر پرو جیکٹ  کا تیسرا فیز کی تعمیر پر کروڑوں کے فنڈ استعمال کرکے چند مہنے ہی چلا یا گیا. اس کے بعد سے ناکارہ ہو چکا ہے۔

بجلی گھر کے فیز ون سے اوپر نالے کی جانب اور فیز ٹو کےلیئے تعمیر شدہ پانی کی ٹینکی کے سامنے آثار قدیمہ کا ایک کھنڈر نما عمارت اور ٹوٹے ہوئے پائیپ کی ایک لمبی قطار گلگت بلتستان کی سب سے بد عنوان محکمہ کے اعلی افسران، ٹھیکے دار اور بیوروکریسی کی سالہا سال سے قائم ملی بھگت اور کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے جو نیب اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو نظر نہیں آتا. ان کی نظریں صرف سیا سی کا رکنوں پر ہوتا ہے۔

اس کھنڈر نما پاور ہاوس کو دیکھتے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے حکمران اور ادارے کسی طرح ہنزہ کے ترقیاتی فنڈ کو بیدری سے اپنے شاہ خرچیوں پر لٹاتے ہیں. نہ جانے اس کی تعمرات اور بعد میں مرمت و غیرہ کے نام پر کتنے فنڈ کس کس کے جیبوں میں چلا گیا ہوگا؟ پاور پروجیکٹ کے نام پر خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود آج بھی ہنزہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محرم ہیں
کیا ہنزہ میں پارو ہاوسیزز کے ڈیزایئن سے لے کر پروجیکٹ سائیٹ اور فنڈ کی منظوری تک کے مراحل طے کرنے والےذمہ داروں کا تعین کر کے کبھی احتساب ہوگا ؟
یہ ہیں ہنزہ کے ساتھ حکمرانوں سیاسی پارٹیوں کے ایمپورٹیڈ اسمبلی کے خواہشمند امیدواروں کا عوام دشمن طرز عمل جو صرف الیکشن کےدنوں میں ذات، برادری، زبان، اور علاقائی بنیادوں پر الیکشن میںووٹ لینے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کےسر سے سینگ ۔

دوسری جانب خیبر پاور ہاوس فیز دو سے اضافی پانی کے اخراج کے استعمال میں آنے والے ارا ضی کا معاوضہ ادا ہوا اور نہ ہی چینل تعمیر کیاگیا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زمینں کٹاؤ کا شکار ہے۔

محکمہ کے کرتادرتاؤوں سے گزارش ہے کہ خدا را مذید ایسے واقعات رونماء ہونے سے پہلے اس کے تدارک کے لیئے عملی قدم اُٹھایا جائے ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ تمام لوکل لائنوں کو آبادی، لوگوں کے زمینوں اور چھتوں کے اُوپر سے فلفور ہٹایا جائے تاکہ مذید ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں