تحریر:محمد علی مسافر
”زن، زر، اور زمین فساد کی جڑیں ہیں”۔ خواتین سے متعلق یہ ان دقیانوسی خیالات (stereotypes) میں سے ایک ہے جو ہمارے معاشرے میں آج بھی عموماً عام گفتگو کے دوران سنا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ سٹیریو ٹائپس کسی معاشرہ میں ایسے منجمد تصورات یا دقیانوسی خیالات ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی فرد، گروہ یا طبقے سے منسوب کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں حرفِ آخر مان لیا جاتا ہے. حالانکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کت دقیانوسی خیالات اور محاوروں کے بارے میں نامور دانشور، محقق، استاد اور مصنف علی عباس جلالپوری نے اپنہ مشہور زمانہ کتاب "عام فکری مغالطے” میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
یوں تو خواتین سے متعلق (یا ان کے خلاف) سٹیریو ٹائپس دنیا کے اکثر معاشروں یا زبانوں میں پائے جاتے ہیں، لیکن آج بہت سے معاشروں میں ایسے خیالات پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور ان کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
سٹیریو ٹائپس عموماً کسی معاشرے میں کسی گروہ یا طبقے کے بارے میں سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرنے سے دلچسپ نکات سامنے آتے ہیں۔ آئیے ذرا اس اسٹیریو ٹائپ ”زن، زر، اور زمین فساد کی جڑیں ہیں” پر غور کرتے ہیں اور اس کی تاریخی اور نفسیاتی بنیاد سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس جملے میں تین عناصر کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ زن یعنی عورت، زر یعنی پیسہ، اور زمین، جن میں سے دو، زر اور زمین، بے جان چیزیں ہیں اور یہ عموماً کسی کی ملکیت ہوتے ہیں۔ لیکن اس جملے میں عورت کو بھی ان کے ساتھ شامل کر کے ان کی خاصیت کو ایک جیسا قرار دیا ہے، یعنی فسادی۔ (اگر غور کریں تو زمین اور زر کا بھی فساد پیدا کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی لالچ، حوس دولت اور وسائل پر اجارہ داری ہے جو ان کے حصول کے لیئے فساد پیدا کرتے ہیں۔)
عورت کو کمتر سمجھنا یا ان کو ملکیت قرار دینا دراصل ایک سوچ یا ذہنی کیفیت کا نام ہے جسے عام طور پر جاگیردارانہ یا پدرسری نظام کی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سوچ نے انسانی تاریخ میں اس وقت جنم لینا شروع کیا جب انسان نے زراعت یا کھیتی باڑی اپنا کر جائیداد بنانی شروع کی اور یوں آہستہ آہستہ طاقت کا ارتکاز عمل میں آنے لگا۔
وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو دو دائروں، نجی دائرہ (private life) اور عوامی دائرہ (public life) میں تقسیم کیا گیا۔ نجی دائرہ یعنی گھر کے اندر انجام پانے والے امور خواتین کی ذمہ داری سمجھے جانے لگے اور عوامی دائرہ، جو کہ وسیع اور پر اثر ہے، مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جانے لگا۔ چونکہ معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں اور فیصلہ سازی زیادہ تر عوامی دائرے میں عمل میں آتی ہے اس لیے مرد معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط ہوتے گئے اور عورت نجی دائرے میں ہونے کے وجہ سے معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور ہونے لگی۔ یوں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ مرد طاقتور ہے اور عورت کمزور، اور یہ سوچ ہزاروں سال تک انسانی معاشرے میں مضبوطی سے قائم رہی۔
لیکن مغرب میں جب صنعتی انقلاب نے جاگیردارانہ نظام کی بنیادوں کو کمزور کیا، تو عورت کو دوبارہ عوامی دائرے میں قدم رکھنے کا موقع ملا۔ لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد مغرب کی عورتیں معاشرے میں ایک حد تک مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں مگر مکمل متوازی حقوق اور اختیارات کے لیے جدوجہد آج بھی جاری ہے۔
عورتوں کو کمزور اور کمتر سمجھنا ایک ایسی سوچ ہے جو کہ کہیں اور کسی بھی وقت پائی جاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سوچ آج بھی کافی حد تک موجود ہے۔ یہ سوچ ہر اس قدم کی مخالفت کرتی ہے جو خواتین کو بااختیار بنانے میں مددگار ثابت ہو۔
اس ذہنیت کو یہ معلوم ہے کہ تعلیم خواتین کو معاشی اور معاشرتی طور پر با اختیار بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، لہٰذا یہ پہلے زبان سے خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرے گی۔ اگر اس سے کام نہ چلے تو اسکولوں کو بارود سے اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرے گی اور بس چلے تو بندوق کے ذریعے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کی بھی بھر پور کوشش کرے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر یہی لوگ اپنی بیویوں کے علاج کے لیے لیڈی ڈاکٹر ڈھونڈتے پھرتے ہیں، مگر لیڈیز کے ڈاکٹر بننے کے مخالف نظر آتے ہیں۔
ایسی سوچ بعض دفعہ فرسودہ روایات اور رسم و رواج جیسے جرگہ، کارو کاری، وٹہ سٹہ کی صورت میں بھی نمودار ہوتی ہے۔ مردوں کا یہ جرگہ ملکی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر یہ فیصلہ صادر فرماتا ہے کہ خواتین انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔ اس ذہنی کیفیت کو دراصل یہ گوارہ نہیں کہ خواتین اس انتخابات میں حصہ لیں جس میں ایک خاتون کا ووٹ ایک مرد کے ووٹ کے برابر ہے۔
اس قبائلی سوچ کو دراصل اس بات کا ڈر ہے کہ اگر خواتین بااختیار ہوگئیں تو یہ پبلک دائرے میں آکر ان کے ساتھ حصہ دار بن جائیں گی اور فیصلہ سازی میں شرکت کریں گے۔ اور یہ تو بالکل گوارہ نہیں کہ عورت ان سے اوپر عہدے پر فائز ہو، کیونکہ اس سے ان کی مردانگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسی ذہنیت کے مرد گھر کے اندر کچن میں جانا اور بیوی کا ہاتھ بٹانا اپنی مردانگی کی توہین تصور کرتے ہیں، لیکن باہر ہوٹل کے کچن میں کام کرنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں جن خواتین کو اپنی صلاحیت کے اظہار کا موقع ملا انہوں نے ہر شعبے میں اپنے کردار کو بخوبی نبھایا اور خوب نام کمایا۔ آرٹ ہو یا شاعری، کاروبار ہو یا سیاست، ہوا پیمائی ہو یا کوہ پیمائی، ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا، اور یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی شعبے میں مردوں سے کم نہیں۔
لیکن یہ سفر آسان نہیں بلکہ آگ کا دریا ہے۔ اس مہم جوئی میں جب بعض سرپھروں نے اس مائینڈ سیٹ کو چلینج کیا کہ وہ زر اور زمین کی طرح کسی کی ملکیت نہیں، بلکہ مردوں کی طرح انسان ہیں، تو سبین محمود اور پروین رحمان جیسے مہم جوؤں کو اپنی جان بھی دینی پڑی۔
تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک میں خواتین نے اپنا مقام اور حقوق ویسے ہی حاصل نہیں کیئے، بلکہ ان کی مسلسل جدوجہد اور قربانی کے عوض ان کو کچھ ملا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ کٹھن سفر خواتین کو خود ہی طے کرنا ہوگا۔ یہ مضمون سب سے پہلے ڈاون ٹی وی کے پیج پہ شائع ہوا تھا
محمد علی مسافر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے. وہ کوینزلینڈ یونیورسٹی آسٹریلیا میں ایچ ڈی اسکالر ہیں. ان کی دلچسپی کے موضوعات تحقیق، سماجی انصاف، اور تعلیم ہے.