تحریر: اے ایچ کھوکھر
آج یعنی 28 مارچ روس کے عظیم انقلابی شاعر، ناؤل نگار، اور افسانہ نگار کی پیدائش کا دن ہے ۔ مکسم گورکی آج کے دن 1868ء کو پیدا ہوئے تھے.
ان کی تحریروں اور مضامین نے دنیا بھر کے مظلوم طبقات کو جینے کا ڈھنگ سیکھایا ان میں امید اور اک نیا جوش وجذبہ پیدا کیا ۔اگر آپ اس کی ذاتی زندگی کا مشاہدہ کریں تو اس میں بھی ہر مایوس و ناامید انسان کے لیے کامیابیوں کے سو سو درس ہیں۔
وہ بلکل بچہ تھا کہ باپ مر گیا ۔ماں نے دوسری شادی کر لی ماں بھی کچھ عرصہ بعد مر گئی. نانا نے گھر سے بھگا دیا۔ تعلیم کے لیے وسائل نہ ہونے پر اس نے جگہ جگہ چھوٹے موٹے کام کئے ملازمتیں کی ۔بائیس سال کی عمر تک زمانے کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے 1890ء میں ایک وکیل کے ہاں ملازم ہو گیا ۔جہاں اس نے اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو نکھرانا شروع کیا، اور اس وکیل کی بھی خصوصی محبت اور اپنائیت سے وہ افسانے لکھنے لگا۔
چونکہ اس کا استاد کوئی مدرسہ نہیں زمانہ تھا، زندگی کے تلخ تجربات تھے، جسے اس نے الفاظ کی شکل میں قلم سے کاغذ پر اتارا۔اور کیا کہنے کہ کیسے کیسے الفاظ کا استعمال کر گیا۔ اور پھر صرف دس سال کے اندر اندر وہ روس ہی نہیں دنیا بھر میں اپنا اک مقام بنا گیا ۔ جہاں اس کے چاہنے والے اور پڑھنے والوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اس کی کتابیں اس کی ذاتی زندگی سیر وتفریح آوارگی، انقلاب روس اور بہت سے موضوعات پر ہیں. لیکن دنیا انہیں ان کی شہرہ آفاق کتاب "ماں” سے پہنچاتی ہے جس کا کئی ممالک اور زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔اس کے علاوہ ان کی مشہور ناولیں "زندگی کی راہ پر”، "میرا بچپن”، "منزل کی تلاش” شامل ہیں.
ہیاں ہم ‘ماں’ سے کچھ اقتباسات آپ کے ذوق کی نظر کرتے ہیں:
"ماں نے اس سے اور اس کے دوستوں سے پوچھا میں نے سنا ہے تم خدا کو مانتے ہی نہیں؟؟”
پاول ولاسوف جو ناول کا اہم کردار ہے، نے جواب دیا، "ماں ہم اس خدا کی بات نہیں کر رہے ہیں جو تیرے دل میں ہے، جو رحیم و کریم ہے، شفیق ہے، اور اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے..۔ ہم تو اس خدا کی بات کر رہے ہیں جو پادریوں اور ملاؤں نے ہم پر مسلط کر دیا ہے، جو ہر وقت ڈنڈا ہاتھ میں لئے بندوں کو ہانکتا رہتا ہے۔ ماں دیکھنا ایک دن ہم اپنا رحیم و کریم خدا ان پادریوں، اور ملاؤں کے قبضے سے چھڑا لیں گے. پھر اس کو اپنے دل میں بسائیں گے اور اس کی حمد گائیں گے ۔”
ایسے ہی ایک اور اقتباس جو ریاستی جبر کی عکاسی کرتا ہے۔
"کیا کروں ماں مجھے تو تسلی دینی آتی ہی نہیں خیر تمہیں اس کا عادی ہونا پڑے گا”.
ماں نے سرد آہ بھری اور اپنی آواز کو بھر آنے سے روکتے ہوئے، آواز کو سنبھالتے ہوئے تھوڑے وقفے سے بولی.
"تمہارا کیا خیال ہے.
"یہ لوگ اذیت بھی دیتے ہیں؟؟
"کھال ادھیڑ دیتے ہیں؟؟
"ہڈیاں توڑ دیتے ہیں؟؟
"جب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں اف میرے لال کیسی اذیت ناک چیز ہے؟؟
"پاویل یہ لوگ روح کو اذیت دیتے ہیں!
اس سے اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے جب یہ انسانوں کی روح پر اپنے گندے ہاتھ ڈالتے ہیں.”
میکسم گورکی کے متعلق ٹالسٹائی نے ایک بار کہاں تھا:
"نہ جانے مجھے کیوں گورکی اچھا نہیں لگتا ہر وقت ادھر ادھر ایسے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے سب کچھ جا کےخدا کو با تفصیل بتانا ہو!
یہ عظیم انسان 28 جون 1936 کو اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
یہ تحریر اے ایچ کھوکھر کے فیس بک پیچ سے لیا گیا ہے.