Baam-e-Jahan

مظلوموں کی تدریس

تحریر: امان کریم

 

 

 

 

 

مظلوموں کی تدریس پاولو فرارے کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس کو تعلیم کے میدان میں وہی مقام حاصل ہے جو انگریزی ادب میں شیکسپیئر کے ڈرامے جولیس سیزر کو حاصل ہے۔ پاولو فرارے جن کا تعلق برازیل سے ہے کا شمار موجودہ دور کے ان چند گنے چنے ماہرین تعلیم میں ہوتا ہے جنہوں نے تعلیم کا ایک نیا تصور اور فلسفے کو ایک نئی سمت دی ہے۔ اگر آپ تعلیم کو ترقی، خود اعتمادی، سماجی انصاف کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ آپ کی سوچ کو نئی بلندی عطا کر سکتی ہے۔
درجہ ذیل میں اس کتاب کے اہم نکات کا تعارف و تجزیہ پیش کیا جاتا ہے:-

فرارے اپنی معرکتہ الآراء کتاب میں تعلیم اور تعلیمی عمل کو تنقیدی نظریہ کے اصولوں پر پرکھتا ہے اور تعلیم کو طاقت اور سماجی انصاف کے وسیع ترتناظرمیں معاشرے کے طاقتور طبقوں اور مظلوموں کے درمیاں صدیوں پہ محیط کشمکش سے تعبیر کرتے ہیں جہاں معاشرے کے بالا دست طبقات نے تعلیم کو کمزور طبقات کے استحصال کے آلہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ تعلیم کو حقیقی معنوں میں ایک آزادی اور طاقت عطا کرنے والی عامل کے طور پر سمجھنے کے لئے جبر اور کنٹرول کے نظام اور مظلوم طبقات کے ان نفسیاتی رجحانات اور سماجی حقیقتوں کو سمجھنا ہوگا جن کی وجہ سے طاقتور کے لئے جبر کرنا آسان اور مظلوم کے لئے اس جبر کے خلاف آواز اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔

جس کو وہ مظلومیت کی نفسیات کے عنوان سے بحث کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ بسا اوقات تعلیم کو قوت، اختیار اور عقلی آزادی عطا کرنے والی محرک کی بجائے جبر کے نظام کو تقویت دینے والے محرک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ فرارے اس صورت حال کو بدلنے کے لئے آزادی اور تقویت عطا کرنے والا ایک تعلیمی ماڈل پیش کرتا ہے جس میں وہ ایک مخصوص طریقہ تدریس، تعلیمی مواد، طریقہ کار، اساتذہ کا کردار اور طالب علموں کی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے۔

فرارے کے خیال میں مظلومیت سے اختیار اور آزادی کا سفر تبھی ممکن ہے جب تعلیم کا عمل لوگوں کو اس قابل بنا دے کہ وہ ان سیاسی، معاشی اور سماجی تضادات کو پہچان سکیں جو ان کی محرومی کا باعث ہیں۔ اور پھر اس کے خلاف لائحہ عمل ترتیب دے سکیں۔ یہ اتنا اسان نہیں۔ جبر کی جڑیں صرف تعلیمی نصاب تک محدود نہیں، بلکہ انسانی سماج کی تشکیل طاقتور ترین طبقہ کے بقا کے اصول پر ہوئی ہے، جس میں کلچر، ادب، زبان، میڈیا، اعتقادات، اور اخلاقی بیانیوں کو استعمال کر کے سکوت یا خاموشی اور برداشت کے کلچر کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ اس خاموشی کو توڑنے اور اپنی آزادی اور اختیار کے تصور کا ادراک حاصل کرنے کے لئے تعلیمی عمل کو سماجی علوم اور بشریات کے ایک کثیر الجہت تنقیدی مطالعے کے طور پر دیکھنا ہوگا جو طالب علموں اور اساتذہ میں جبر اور کنٹرول کے پیچیدہ میکینزم کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر سکے.

 

فرارے کے مطابق جبر کا نظام طاقتور طبقات سے زیادہ ان کے مددگار افراد سے چلتا ہے جو بذات خود مظلوم طبقے کا حصہ ہوتے ہیں۔ مراعات اور طاقتور طبقوں کی قربت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے ہم جنسوں پر ہونے والے مظالم میں طاقتور طبقوں سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس کی مثال کلہاڑے سے دی جا سکتی ہے کہ درخت کی لکڑی کاٹنے کے لئے خود لکڑی کا دستہ ہی کام آتا ہے۔ فرارے کے خیال میں کسی بھی تبدیلی کے لئے خود محکوم اور مظلوم طبقے کی شرکت لازمی ہے اور یہی سب سے بڑی الجھن بھی ہے کہ جبر کے عادی اکثریت اور مراعات کے خواہاں آلہ کار بننے والی شاطر اور خود غرض اقلیت کو کس طرح تبدیلی کے عمل کے لئے راغب کیا جائے اور مظلوم طبقے کو یہ احساس دلایا جائے کہ جس ظلم اور جبر کے وہ عادی ہیں وہ اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔

مظلوموں کی آزادی کی ترغیب اور تدبیر کی راہ میں دوسری رکاوٹ آزادی کا خوف ہے۔ مظلوم طبقات طاقت کے نظام کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں جہاں سسٹم کو دوش دے کر وہ اپنی محرومی کو بدلنے کے ذمہ داری سے خود کو مبرا کرنا چاہتے ہیں۔ طاقتور اور مظلوم کے نفسیاتی شبیہوں کو جو ان کے دماغ میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں الگ کرنا تبھی ممکن ہے جب ان کو احساس دلایا جائے کہ آزادی کی قیمت ذمہ داری ہے۔ آزادی اور عظمت پلیٹ میں سجا کے پیش نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔

اور یہ تبھی ممکن ہے جب تعلیم کا عمل تنقیدی نگاہ پیدا کرسکے۔ استاد کا کام معلومات کی ترسیل اور مہارتوں کی تدریس تک محدود نہ ہو بلکہ وہ تفکر یعنی ریفلیکشن اور انسانی جذبات اور احساسات کو آزادی اور سماجی مساوات جیسے ارفع اخلاقی اصولوں کے ساتھ طالب علموں کی عزم اور وابستگی کو مضبوط بنا نے کے لئے سدھار سکے تاکہ طالب علم غلط کو غلط کہنے کی اخلاقی جرات پیدا کر سکیں۔ اور اس کو فرارے تنقیدی شعور یعنی کریٹیکل کانشنس کا نام دیتا ہے۔ اس تنقیدی شعور کی بیداری کی ابتدا ایک فرد واحد سے ہوتی ہے پھر دوستوں کے مختصر حلقے وجود میں آتے ہیں اور یہ بیداری معاشرے کے ایک وسیع طبقے تک پھیل جاتی ہے اس لئے اساتذہ کو ہمت اور استقامت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

فرارے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اکثر ممالک کا تعلیمی نظام جبر کے بنیادی اصولوں کا عکاس ہے۔ جہاں استاد اور طالب علم کا رشتہ طاقتور اور کمزور کے رشتے پر قائم ہے۔ عمومی طور پر استاد اپنے اپ کو علم کا منبع اور طالب علم کو ایک خالی برتن سمجھ کر خیالات، نظریات، معلومات اور تصورات کو انڈیل دیتا ہے اور طالب علم کو غور و فکر کرنے، اور زندگی کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنے کی بجائے استاد کے انڈیلے معلومات کو من و عن یاد کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اس کو وہ تعلیم کا بینکاری ماڈل یعنی بینکنگ ماڈل آف ایجوکیشن کہتا ہے۔

یہیں سے طالب علموں کو ایک جابرانہ نظام کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی بجائے وہ پرابلم پوزنگ ماڈل یعنی مسائل سے روشناس کرنے والے تدریسی ماڈل تجویز کرتے ہیں جس میں طالب علموں کو ان کی اپنی زندگی سے متعلق حقیقی مسائل کا تجزیہ کرنے اور اس کا حل نکالنے کے لئے معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ ان کو جوابات دینے کی بجائے سوال کرنے اور اس سوال کے جواب تلاش کرنا سکھایا جاتا ہے۔ اس کے لئے وہ ڈائیلاگ یعنی گفت و شنید پر زور دیتے ہیں اور ان کے خیال میں ایک طبقاتی معاشرے میں ڈائیلاگ حلیمی، محبت، بھروسا اور انسانیت پر یقین کو مضبوط کرنے والا عامل ہونا چاہیے۔ آزادی اور مساوات کے لئے کی جانے والی کسی بھی عظیم جد و جہد کی طرح ڈائیلاگ بھی خیالات اور عملی اقدامات کا مجموعہ ہو تو مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اور اس کو وہ پریکسس کی اصطلاح سے واضح کرتے ہیں۔ وہ بے عمل افکار اور بغیر فکر کے عمل کو فائدہ مند تصور نہیں کرتے۔

فرارے خودمختاری، فکری بالیدگی اور آزادی کے تصورات کو پروان چڑھانے کے لئے طالب علموں کو تاریخ کے اسباق سے روشناس کروانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں تاریخ کا شعور اور سماجی وجدان انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے اور تاریخ کے اسباق اور عنوانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہر دور میں انسانوں کے ایک بڑے طبقے نے اس دنیا میں عدل، مساوات، اور نیکی کے اصولوں پر کابند رہنے اور اپنے سماجی پس منظروں پہ مثبت طور پہ اثر انداز ہونے کی کوششوں کو ترک نہیں کیا ہے۔ تاریخ کے مطالعے کے ذریعے اساتذہ اپنے طالب علموں کے اندر بھی محروم طبقات کی بالیدگی اور سماجی انصاف کے لئے جہد مسلسل کی روح بیدار کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اپنی کتاب کے اختتامی حصے میں فرارے ثقافتی تعمل یعنی کلچرل ایکشن کو تدریسی عمل کا حصہ بنانے پر زور دیتے ہیں ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ بالا دست طبقات نے محکوموں کی ثقافتی تنوع اور گروہی پہچان کو الگ کرنے، نا اتفاقی پیدا کرنے اور کمزور کرنے والے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اساتذہ کو اس کے بر خلاف ثقافتی تنوع کو ایک طاقت عطا کرنے اور جوڑنے والی محرک کے طور پر متعارف کروانا چاہیے۔ اس کے لئے ان اشخاص اور ہستیوں کے طرز عمل کا مطالعہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے جنہوں نے انسانی معاشرے کی گونا گونی کو ظلم، جبر اور سماجی نا انصافی کے خلاف متحد کرنے والی طاقت کے طور پر استعمال کیا ہے۔

‘مظلوموں کی تدریس’ دل اور دماغ دونوں کو تحریک دے سکتا ہے۔ یہ کتاب کسی سازشی نظریے یا سرمایہ دارانہ نظام کی کوئی عمومی تنقید نہیں ہے بلکہ یہ ایک گہرے شعور کے حامل کتاب ہے جو انسانی معاشرے میں صدیوں پہ محیط طاقت اور جبر کے نظام کی نشاندہی کرتی ہے اور اس پس منظر میں تعلیم کو بیداری اور تبدیلی کا ایک مسلسل عمل ہے کے طور پر معارف کرواتی ہے۔ اس کتاب میں فرارے نے ہمیں یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ہم تجزیے اور تفکر کی طاقت سے اپنے سماج کی حقیقتوں کا ادراک حاصل کرتے ہوئے ان کو تنقیدی اور تخلیقی انداز میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔


کریم امان کا تعلق ہنزہ سے ہے وہ درس وتدریس سے وابستہ ہیں. آئندہ ان کی تحریریں ہائی ایشاء ہرالڈ اور بام جہان کے صفحات پہ ملیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے