تحریر: حسنین جمیل فریدی
پاکستان اقلیت کی رائے سے معرضِ وجود میں آنے والی ریاست جہاں اس کے قیام کے پہلے دن سے ہی اختلاف رائے جُرم اور عدم برداشت معاشرتی عادت بن چُکی۔ یہاں ریاست کے فرسودہ بیانیے کے برعکس سوچنااور اس کے خلاف آواز بلند کرنا ریاستی حکم عدولی تصور کیا جاتا ہے نا معلوم (مگر سب کو معلوم ) ادارے مختلف ہتھکنڈوں سے ریاستی جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کوشش کرتے رہتے ہیں جہاں ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں یا انکی سیاسی ،سماجی اور معاشی حیثیت کو نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔
ایسا ہی سلوک ایک مختلف مگر مثبت سوچ رکھنے والے ایک عظیم استاد ڈاکٹر عمار علی جان سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ دو ہزار سولہ میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والا یہ نوجوان استاد ایک نئے جذبے اور روشن امید لئے اپنے ملک واپس لوٹتا ہے جس کا مقصد سرکاری جامعات کے طلبہ کو پرائیویٹ اداروں کے طلبہ کے مُساوی معیارِ تعلیم فراہم کرنا ہے اور ان میں تنقیدی، تعمیری اور تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانا ہے مگر یہ ریاست اس استاد کے نوجوانوں میں سوال پیدا کرنے والی جدید سوچ کو ریاست دشمنی تصور کرتی ہے جبکہ ان نوجوانوں کےسوالات کو دبا کر انہیں مارنے والی حقیقی ملک دشمن سوچ رکھنے والوں کی مہمان داری میں محوّ ہے۔
شکاگو یونیورسٹی (امریکہ) سے گریجویشن اور ماسٹرز کرنے کے بعد، سکالرشپ حاصل کر کے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کر کے وطن واپس لوٹتے ہی ڈاکٹر عمار جان کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایک جاب آفر کی گئی جسے انہوں نے ہنسی خوشی قبول کیا۔ یہاں یہ پرجوش اور جدیدیت کے قائل استاد باقاعدہ کلاسز کو پڑھانے کا آغاز کرتے ہیں کلاسز کے اوقات کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے طلبہ باہر گراؤنڈز میں ان سے تھیوری، سیاسیات، سماجیات اور معاشیات پڑھتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے ریڈنگ سیشنز بہت بڑے بڑے سٹڈی سرکلز میں تبدیل ہوجاتے ہیں جہاں تاریخ، فلسفہ ، سیاست اور انسانی حقوق موضوع بحث بننے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس استاد کے سٹوڈنٹس نظامِ تعلیم پر سوال اٹھانے کا جمہوری حق استعمال کرتے، ان سیاسی و سماجی ڈھانچوں پہ سوال کرنا شروع کر دیتے ہیں جو اس ملک کو ستر سال سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
یہ طلبہ پشتون، بلوچ، سرائیکی، سندھی و دیگر قومیتوں کے استحصال پہ سوال اٹھاتے ہیں جس سے ریاستی اشرافیہ کی اجارہ داری خطرے میں پڑ جاتی ہے لہٰذا عمار علی جان کی بڑھتی مقبولیت سے پریشان پروفیسرز ، انتظامیہ اور ریاستی مشینری انہیں وہاں سے فارغ کروانے کے لیئے روائتی سازشی حربوں کا استعمال کرتی ہےاور بلاآخر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پروفیسر عمار کے بقول وہ جی سی یونیورسٹی میں ماہانہ صرف 30 ہزار روپے تنخواہ کے عوض پڑھاتے رہے انھیں ان کی محنت کا اتنا کم عوضانہ ادا کرتے ہوئے بھی ان کی عزت نفس مجروح کی جاتی رہی۔
جی سی یونیورسٹی کے باب کو ایک تاریک خواب سمجھ کر بھلا دینے کے بعد یہ استاد سرکاری جامعات میں فروغِ تعلیم کے اُسی جذبے کے تحت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کیساتھ بطور اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ہوئے۔ یہاں بھی ان کا جذبہ معلمی دیدنی تھا. جہاں راقم کو خود ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔ اس جامعہ میں ان کا تمام وقت طلبہ کے درمیان مختلف موضوعات پہ سیر حاصل گفتگو کرتے گزرتا۔ یہ اساتذہ کی بجائے طلبہ کے ساتھ کھانا کھاتے اور چائے پیتے، انہیں یہاں دس فٹ کا کمرہ دیا گیا جو ہر وقت طلبہ سے کھچا کھچ بھرا رہتا کمرہ چھوٹا مگر ان کا دل بہت بڑا تھا جہاں یہ تمام طلبہ اور ملنے والوں کی خوب مہمان نوازی کرتے۔
جامعہ پنجاب (جو دائیں بازو کے گروہوں کی بہت بڑی آماجگاہ ہے) میں ان کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کے خلاف بہت سی سازشی تھیوریاں سامنے لائی گئیں. مجھے یاد ہے کہ ایک دن ‘عدم تشدد’ کے موضوع پر سٹڈی سرکل کے دوران انہوں نے مہاتما گاندھی اور باچا خان کے عدم تشدد کے افکار کا ذکر کیا جس پہ جمیعت کے ارکان نے ان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ ایک دن شعبہ سوشیالوجی میں انکی کلاس کے دوران کچھ لوگوں نے ان کے ایک پشتون سٹوڈنٹ کو کلاس سے باہر لے جا کر ڈنڈوں اور راڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا جس کی بناء پہ انہوں نے جامعہ میں پشتون طلبہ اور دیگر قومیتوں کے ساتھ جبر کے خلاف ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف ریاستی سرپرستی میں راؤ انوار کا نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کے باعث پشتونوں کی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جسے انسانی ہمدردی کے باعث اس پروفیسر نے کھل کر سپورٹ کیا۔ سرکاری جامعہ کے اس پروفیسر کامظلوم قومیتوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ ریاست کو ایک آنکھ نا بھایا لہٰذا ریاستی اداروں نے ایک سازش کے تحت انہیں پنجاب یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کی ٹھانی۔ ان سازشوں کے نتیجے میں ہمیشہ کی طرح جامعہ نے بغیر کسی تحقیق کے ریاستی اداروں کے دباؤ میں آکر انہیں وہاں سے نکال دیا۔ انہیں نکالے جانے کی خبر بھی ان تک انتہائی غیر اخلاقی طریقہ سے پہنچائی گئی کہ جب وہ کلاس لینے یونیورسٹی پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ ان کا دفتر بند کر دیا گیا ہے . استفسار کرنے پہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ یقیناً یہ رویہ ایک استاد کو بے عزت کے مترادف ہے۔ تاہم ان کو نکالے جانے کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی دفعہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد نے سڑکوں پہ نکل کر اپنے استاد کے حق کیلئے آواز بلند کی۔ طلبہ، جامعہ کی تپتی دھوپ میں ‘واپس لاؤ واپس لاؤ ، عمار جان کو واپس لاؤ‘ جیسے پرجوش نعروں کے ساتھ یونیورسٹی کی مین شاہراہ کی طرف نکل پڑے۔ یہ بھی ایک استاد سے محبت اور عقیدت کے اظہار کا ایک تاریخی دن تھا وگرنہ یہ وہ جامعہ ہے جہاں طلبہ تنظیم اساتذہ پہ تشدد کرتی ہے مگر کوئی طالب علم کسی استاد کے ساتھ ایسے سلوک پہ آواز نہیں اٹھاتا۔ پروفیسر عمار کے بقول تقریباً ایک سال کا عرصہ پڑھانے کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے انہیں واجبات ادا نہ کئے جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ان کا کیس آج بھی لاہور ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
جبر کے یہ حالات اس وقت انتہا کو پہنچے جب انکی بیوی ‘ٹیبیتھا سپنس’ جو کہ لاہور سکول آف اکنامکس میں بطور لیکچرر اپنے فرائض سر انجام دے رہی تھیں، انہیں بھی ریاست کے احکامات پہ نوکری سے نکال دیا گیا۔ ان پہ بیرون ملک ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے گئے اور ریاستی سرپرستی کے تحت ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے متعلق مختلف سازشی نظریات تیار کی گئیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے بعد ایک طویل عرصہ وہ باعزت روزگار کی تلاش میں رہے تاہم ایف سی کالج کے شعبہ سیاسیات کی ایک خالی سیٹ پہ انہیں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔ یہاں وہ بہترین طریقہ سے طلبہ میں شعور و آگہی پیدا کرنے میں سر گرمِ عمل تھے۔ ریاستی ادارے ہر جگہ ان کا پیچھا کرتے رہے مگر انہیں ان کے خلاف ایک ثبوت تک نہ ملا۔
ایف سی کالج میں پڑھانے کے دوران لورالائی میں ایک پشتون پروفیسر اور سماجی کارکن ارمان لونی کو قتل کرنے کی خبر سامنے آنے پر ارمان لونی کے بے رحمانہ قتل کے خلاف لبرٹی چوک لاہور میں ایک پر امن مظاہرہ کیا گیا جس میں انہوں نے بحثیت استاد اور سماجی کارکن شرکت کی۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے طلبہ کو عدم تشدد کا درس دیا اور آئینی و قانونی طریقہ کے ساتھ اپنے مطالبات منوانے پر زور دیا۔
انہی ایام میں حقوقِ خلق موومنٹ (جس کے ممبر ڈاکٹر عمار بھی ہیں) کی طرف سے ساہیوال میں ریاستی دہشت گردی کے باعث یتیم ہونے والے بچوں کو انصاف دلانے کی غرض سے ‘شہری تحفظ مارچ’ کا اعلان کیا گیا۔ مگر اس مارچ سے ایک دن قبل ارمان لونی کے پر امن احتجاج کے انعقاد کے جرم میں غیر قانونی طریقہ سے رات 2 بجے پولیس اور سول کپڑوں میں ملبوس چند افراد انہیں گھر سے آکر گرفتار کرنے پہنچ گئے۔
ان کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی صبح 4 بجے کے قریب میرے سمیت ان کے بہت سے طلبہ لبرٹی تھانہ پہنچے اور ان کو ضمانت ملنے تک ان کے ساتھ رہے۔ دورانِ حراست طلبہ میں غم وغصہ کی شدید لہر دوڑ گئی چونکہ اس گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہ تھا مگر پولیس والوں کی درخواست پر انہوں نے طلبہ کو پر امن رہنے اور شائستہ لب و لہجہ اپنانے پر اسرار کیا۔ یقیناً ان کا یہ رویہ انکی سنجیدگی اور ریاستی قوانین کے احترام کی غمازی کرتا ہے۔
پچھلے سال نومبر میں ہونے والا ‘طلبہ یکجہتی مارچ’ جو خالصتاً طلبہ نے منعقد کروایا۔ اس مارچ کے مطالبات وزیراعظم سمیت تمام بڑی جماعتوں کے سربراہان اور اراکینِ اسمبلی نے جائز قرار دے کر پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر ریاست نے پھر منافقت سے کام لیتے ہوئے عمار جان سمیت دیگر ساتھیوں فاروق طارق، اور کامل خان پر غداری جیسے سنگین مقدمات قائم کئے اور ہمارے طالب علم ساتھی عالمگیر وزیر کو جامعہ پنجاب سے اغواء کر کے ان پہ بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔
کرونا وائرس کے سنگین حالات کے دوران جب مزدوروں کو فیکٹریوں سے نکالا جارہا ہے۔ ریاست نے غریبوں اور محنت کشوں کی سرپرستی سے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا تو عمار جان اور حقوقِ خلق موومنٹ نے ‘لیبر ریلیف کیمپین’ کے نام سے مزدروں اور محنت کشوں میں راشن تقسیم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہم نے قریب پانچ ہزار مزدور خاندانوں میں راشن فراہم کیا۔
ان حالات میں جب ہمارے استاد عمار جان سمیت ہم سب مزدوروں، محنت کشوں اور طلبہ حقوق کیلئے آواز اٹھا رہے تھے تو خبر ملی کہ وباء کے ان حالات میں ڈاکٹروں، مریضوں، مزدوروں، طلبہ اور سٹیل مل ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے میں صف اول کا کردار ادا کرنے والے عمار جان کو ایف سی کالج سے نکال دیا گیا جو یقیناً کوئی خوش آئند خبر نہیں بلکہ اس عمل پر ریاستی جبر کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اگر ریاست اس جذبہ انسانیت کے حامل ایک قابل اور محنتی استاد، بہترین سماجی کارکن ، مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے علمبردار ، اور طبقاتی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنے والے سُرخ سُرخیل کو سیکورٹی رسک قرار دے رہی ہے تو ہمیں بحثیت قوم سیکیورٹی رسک کی تعریف کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ریاست ماضی کی طرح ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو سیکیورٹی رسک قرار دیکر ایسے قابل، مخلص، اور مظلوم قومیتوں کیلئے دردِ دل رکھنے والے عظیم استاد اور سیاسی و سماجی کارکنان ہم سے چھینتی رہے گی۔ عمار علی جان جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں، علم دشمنی اور جبرو سِتم کےحالات میں ایسی انسان دوست شخصیت کو ریاستی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
بشکریہ : اسٹو ڈینٹس ہیرالڈ