تحریر: علی احمد جان
سن 2009ء میں گلگت بلتستان کے لئے جاری کئے گئے صدارتی حکم نامہ کے تحت دوسری بار لوگوں کے ووٹوں سے منتخب حکومت اپنی مدت پوری کر کے 24 جون کو رخصت ہوئی۔ گو کہ اس حکم نامہ کی آئین پاکستان کے تحت کوئی قانونی حثیت تو نہیں مگر ایک انتظامی حکم کے طور پر اس پر عمل دراآمد ہوتا ہے۔ اس حکم نامہ میں مسلم لیگ کے دور حکومت اور اب تحریک انصاف نے بھی حسب منشا ترامیم کر ڈالی ہیں۔ بطور صدارتی فرمان کے یہ وزیر اعظم کا استحقاق ہے کہ وہ صدر مملکت کو جیسا سفارش کرتے ہیں ویسا ہی حکم جاری ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے متعلق اس حکم نامہ میں کسی تبدیلی یا ترمیم کے لئے وہاں کے منتخب نمائندوں کی رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا اور ناقدین کے نزدیک لوگوں کی عدم شراکت اشتراکی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کی منافی ہے۔
2009ء کے صدارتی فرمان میں گلگت بلتستان کی مقننہ کو دو ایوانوں میں تقسیم کردیا گیا تھا ۔ ایک منتخب قانون ساز اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کی طرز پر ایک گلگت بلتستان کونسل بھی تشکیل دی گئی تھی جس کے نصف ممبران قانون ساز اسمبلی سے منتخب ہوکر آتے تھے اور باقی نصف ممبران کو وفاقی حکومت اپنے صوابدید پر نامزد کردیتی تھی۔
گلگت بلتستان کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان اور ڈپٹی چئیرمین گورنرگلگت بلتستان ہوتے تھے۔ قانون سازی اور انتظامی امور بھی قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے درمیان تقسیم تھے۔ اس کونسل کے نصف ممبران کی وفاقی حکومت کی طرف سے نامزدگی اورقانونی و انتظامی امور میں کونسل کی مداخلت پر تنقید ہوتی رہی۔
مسلم لیگی حکومت نے گلگت بلتستان کونسل کو ختم کرکے تمام انتظامی اور قانونی امور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپرد کر دئے۔ وزیر اعظم پاکستان کو اسمبلی سے منظور شدہ کسی بھی قانونی مسودے کو مسترد کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ اس حکم نامہ کے تحت وزیر اعظم کو گلگت بلتستان کے قانونی اور انتظامی معاملات میں لا محدود اختیارات حاصل ہیں جو ۱۹۷۳ء آئین کے مطابق ریاست پاکستان میں اس کوبطور سربراہ حکومت بھی نہیں ۔
اس دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے علاقے کا دورہ کیا اور اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے بارے میں عدالت میں دائر تمام متفرق درخواستوں کو یکجا کرکے شنوائی کا حکم دیا۔ وکلا، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور دیگر فریقین کے وکلاء پیش ہوئے اور بھید کھلا کہ یہ مسئلہ اتنا سیدھا نہیں جتنا اس کو سمجھا گیا تھا۔ اس کیس کی شنوائی کے بعد 2018ء کے مرمیم شدہ صدارتی حکم نامہ کے تحت ستمبر 2020ء میں گلگت بلتستان سمبلی کے انتخابات منعقد کروانے کا حکم جاری ہوا۔
گلگت بلتستان کا سوال سیدھا اور یک سطری ہے وہ یہ کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق وہاں کے عوام کو اپنے معاملات چلانے اور اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق کیسے دیا جائے۔ ایک طرف کشمیر کے مسئلے پر ریاست پاکستان کا موقف ہے کہ پورا کشمیر جیسا کہ وہ 15 اگست 1947ء کو تھا پورا کا پورا متنازع ہے اور اس تنازع کے حل تک کسی بھی فریق یعنی پاکستان اور بھارت کو یہ حق نہیں کہ وہ متنازع ریاست کے کسی بھی حصے کی حیثیت کو تبدیل کرے۔ چونکہ گلگت بلتستان بھی 15 اگست 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اس لئے حکومت پاکستان کے موقف کے مطابق متنازع قرار پاتا ہے اور اس موقف کا بار بار اعادہ بھی ہوتا ہے۔
ایک طرف بھارت نے جب لداخ اور لیہ کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی تو پاکستان نے اس کی شدید مخالفت کی تو یہ کیسے ممکن ہے وہ اپنے زیر انتظام گلگت بلتستان میں کسی بڑی جوہری تبدیلی کا متحمل ہو اور بھارت کو اس کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کا جواز فراہم کرے۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کے عوام جنھوں نے جموں و کشمیر کی ڈوگرہ ریاست سے یکم نومبر 1947ء کو اپنی تئیں آزادی حاصل کرکے پاکستان سے الحاق کیا اور گزشتہ ستر سالوں سے ادغام کی توقعات رکھتے ہیں ان کی خواہشات کو کیسے پورا کیا جائے۔ اس پس منظر میں حکومت پاکستان کی صورت حال نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی نظر آتی ہے۔
گزشتہ ستر سالوں میں گلگت بلتستان میں نہ صرف معاشی، سماجی اور سیاسی صورت حال بدل گئی ہے بلکہ لوگوں کی اجتماعی سوچ بھی تبدیل ہوئی ہے۔ اب 1947ء کی جنگ آزادی لڑنے والے غازی ہیرو زندہ نہیں رہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف جدوجہد میں جیلیں کاٹنےاور ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے والے جیالے بھی تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ وابستگی کے دوران معاشی اور اقتصادی مفادات حاصل کرنے والا ایک طبقہ اب سیاست میں قدم مظبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نو دولتیا طبقے میں علاقے کی روایتی اشرافیہ، مذہبی گروہ اور وہ سب شامل ہیں جو اچانک امیر ہوئے ہیں اور کیسے امیر ہوئے یہ ان کو خود بھی معلوم نہیں۔
مہاراجہ کشمیراور مقامی راجاؤں کی چیرہ دستیوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہاں کے لوگوں نے انسانی وسائل کی ترقی اور تعلیم پر توجہ دی جس کے نتیجے میں آج ملک میں خواندگی کے لحاظ سے گلگت بلتستان ایک اچھے درجے پر ہے۔ مقامی طور پر آج بھی معیاری تعلیم کے ادارے ناپید ہونے کی وجہ سے کراچی اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں کے علاوہ صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں۔ اگر تعلیم پر فی گھرانہ اخراجات پر تحقیق کی جائے تو گلگت بلتستان دنیا کے چند خطوں میں شامل ہوسکتا ہے جہاں لوگ اپنے بچوں کی تعلیم پر سب زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
کرونا کی وبا کے بعد تعلیمی ادارے بند ہیں اور طلبہ سے کہا گیا ہے وہ آن لائن تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں۔ مگر سی پیک کے گلگت بلتستان میں واحد منصوبے آپٹیک فایبر لائن کے ساتھ ساتھ آباد شہروں اور دیہاتوں کے طلبہ اپنے کمپیوٹر اور موبائل فون پکڑے مکانوں کی چھتوں، پہاڑوں کی چوٹیوں اور درختوں پر چڑھے انٹرنیٹ کے سگنل کے لئے خوار نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت کی عدم دستیابی پر اپنے مستقبل سے مایوس طلبہ پلے کارڈ اور بینر اٹھائے سڑکوں پرسراپا احتجاج ہیں۔ چونکہ اس علاقے میں ٹیلی کمیونکیشن اور انٹرنیٹ کی خدمات ایک عسکری ادارہ مہیا کر رہا ہے جس کے خلاف آواز اٹھانے پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت غداری کا مقدمہ نہیں تو کم از کم شیڈول فور میں ڈال کر زندگی اجیرن کی جاسکتی ہے ۔
اس دوران حکومت پاکستان علاقے میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک نگران حکومت کی تشکیل میں مصروف ہے۔ ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر جناب میرافضل صاحب نے نگران وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا ہے اور کابینہ تشکیل کے مراحل میں ہے۔ کابینہ میں جن لوگوں کے شامل ہونے کی خبریں ہیں وہ کوئی نئی نہیں ایسے ہی ایک خاص پس منظر، ذہنیت، قابلیت اور استعداد کے حامل لوگوں کو ہر دفعہ عبوری اور نگران حکومتوں میں شامل کیا جاتا ہے جس کا مقصد ایسے لوگوں کو نواز کر تابعداری اور فرمان برداری کا صلہ دینا اور ان سے مطلوبہ نتائج کا حصول ہوتا ہے۔
مگر جو بات نئی ہے وہ یہ کہ کئی لوگوں نے نگران کابینہ میں شامل ہونے سےمعذرت کی ہے۔ معزرت کرنے والوں کو معلوم ہے کہ وہ طلبہ کو انٹرنیٹ کہ سہولت نہیں دے پائیں گے اور نہ بغیر کسی جرم کے پابند سلاسل بابا جان اور افتخار حسین جیسے سیاسی کارکنوں کی داد رسی کر پائیں گے۔ بغیر اختیار اور وسائل کے وہ لوگوں کے توقعات پر پورا نہیں اتریں گے اور زندگی بھر لوگوں سے آنکھ نہیں ملا پائیں گے۔ یہ مضمون پہلے ‘ہم سب’ میں شائع ہوا تھا.
علی احمد جان کا تعلق گلگت-بلتستان سے ہے اور اسلام اباد میں مقیم ہیں. وہ سیاسی تبصرہ نگار، سماجی کارکن، اور مضمون نگار ہیں.