Baam-e-Jahan

حفیظ دور کے غیر جمہوری اقدامات

تحریر۔ اسرارالدین اسرار

 width=

جس طرح ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے نواز شریف اپنے اقتدار کے دنوں میں جمہوری اقدار کا جنازہ نکال دینے والے اقدامات کرتے رہتے تھے اورا قتدار کے ختم ہوتے ہی جمہوریت کا راگ الاپتے پاۓ گۓ تھے اسی طرح گلگت بلتستان میں ان کی جماعت کے منتخب وزیر اعلٰی اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ووٹ کو عزت دو کے نعرہ کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری اقدامات پر آنکھیں بند کرتے رہے ہیں۔

ان کے اقتدار کے آخری دنوں میں الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے جب ان کے اختیارات منجمد کیے تو اپنی جماعت کی پرانی روایت کو برقراررکھتے ہوۓ انہوں نے جمہوریت کو بہت یاد کیا۔ اپنی ایک پریس کانفرنس میں وہ الیکشن کمیشن کے اقدامات کو غیر جمہوری قرار دینے کے علاوہ گلگت بلتستان کے حقوق کے ضمن میں سری نگر اور گلگت بلتستان کا موازنہ بھی کراتے رہے۔

سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اپنے اقتدار کے پانچ سال مکمل کرکے 24 جون 2020ء میں اپنے گھر کو رخصت ہوۓ۔ بظاہر ان کا دور پرامن رہا اور ان کے حمایوں کے مطابق ان کے دور میں گلگت بلتستان میں نمایاں ترقی ہوٸی۔ ان کے مخالفین کے مطابق ان کی ترقی اور تمام تر توجہ ان کے حامیوں کے لۓ تھی۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر حفیظ کے اقتدار کا دور علاقے کے لۓ سود مند نہیں تھا۔

ان کے دور اقتدار میں تعمیر و ترقی اور پالیسیوں کاجائزہ لینے کے لۓ ہر شعبہ ہاۓ زندگی سے متعلق ان کے اقدمات پر الگ سے بحث ہوسکتی ہے۔ اگر ایک مجموعی اور سرسری جائزہ لیا جاۓ تو چند ایک نقاط زیادہ نمایاں ہوکر نظر آتے ہیں۔ ان نقاط میں ان کے وہ اقدامات بھی شامل ہیں جو یہاں پر آزادی اظہار راۓ پر قدغن لگانے کے لۓ کیۓ جاتے رہے۔ ان کے دور میں علاقائی میڈیا مکمل طور پر زیر عتاب رہا۔ مقامی صحافتی تنظیمیں مہنوں مہنوں احتجاج کرتے رہے، وزیر اعلٰی ہاؤس اور جی بی اسمبلی کے باہر دھرنا دیتی رہیں۔ صحافیوں کو دھمکیاں اور زدو کوب کرنے کے کئی واقعات رونما ہوۓ۔ اخبارات کے اشتہارات کی تقسیم اور بقایا جات کی عدم ادائیگیوں پر صافتی تنظیموں میں شدید اضطراب پایا گیا. جبکہ حکومت مخالف خبروں کی اشاعت پر انتقامی کارروائیاں اس کے علاوہ تھیں۔ کئی صحافیوں پر مقدمات بناۓ گۓ ان کو تھانوں اور جیلوں میں ڈالا گیا۔ ایک مقامی اخبار بانگ سحر کو بند کرنے کے علاوہ اس کے چیف ایڈیٹر ڈی جے مٹھل کو دو سال سے زائد عرصہ جیل میں رکھا گیا۔

ووٹ کو عزت دو کے قائل وزیر اعلی خود اپنے ووٹرز کی آزادی اظہار راۓ اور احتجاج کے جمہوری حق پر حملہ کرتے رہے۔ درجنوں سیاسی کارکنوں اور احتجاجی مظاہرین پر ان کے دور میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بنے۔ کئی جاندار سیاسی اور صحافتی آوازوں کو دبانے کے لۓ طرح طرح کے مقدمات بناۓ گۓ مگر وزیر اعلٰی نے اس پر افسوس تک نہیں کیا۔ کئی طلبا ٕ اور سیاسی کارکنوں کو جب انسداد دہشت گردی کے کالا قانون شیڈول فور میں ڈالا گیا تو وزیر اعلٰی ایسے خاموش رہے جیسے ان کو اس بات کی کانوں کان خبر ہی نہیں ہوئی ہے۔ ٹیکسوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو وزیر اعلیٰ نے سبق سیکھانے کا اعلان کیا۔ مختلیف قوم پرست اور مذہبی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ‘عوامی ایکشن کمیٹی’ جس کو وہ پی پی پی کے دور میں سپورٹ کرتے تھے اپنے دور میں اس کو روکنے کے لۓ تمام تر سرکاری مشینری کو استعمال میں لایا گیا۔

ان کی پارٹی کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جب گلگت کے دورے پرآئے تو یہاں جن لوگوں نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا ان پر انسداد دہشت گردی کے مقدمات بناۓ گۓ۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ اور معروف سیاسی کارکن مولانا سلطان رئیس کو کئ دفعہ گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعلٰی کے اپنے حلقےکے ایک صحافی ثاقب عمر کو اس لۓ شیڈول فور میں ڈالا گیا کیونکہ انہوں نے سرکاری بے ضابطگیوں کو اجاگر کیا تھا۔

باباجان اور دیگر سیاسی اسیروں کے کیس کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ بابا جان کی پارٹی کے اعلی قیادت سے وعدے وعید کیۓ مگر سب بے سود اور ہوائی ثابت ہوۓ۔ الٹا عوامی ورکرز پارٹی اور قوم پرست جماعتوں کے کئ کارکنوں کو حراساں کیا جاتا رہا اور کئ کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔

جمہوریت کا دعویدار وزیر اعلٰی کا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی بھی جمہوریت پسندوں کے لۓ حیرت انگیز تھا۔

غرض ایسے بے شمار اقدامات ہیں جوآزادی اظہار راۓ، پر امن احتجاج اور جلسہ جلوس جیسے بنیادی جمہوری حقوق غصب کرنے کا باعث بنے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف جب ملک میں جمہوریت کے حق میں ”مجھے کیوں نکالا “ کی تحریک چلا رہے تھے عین اسی وقت ان کی پارٹی کے وزیر اعلی گلگت بلتستان میں بنیادی جمہوری حقوق کا گلا گھونٹنے میں مصروف تھے۔ خود اپنے صوبائی ترجمان فیض اللہ فراق کو دیوار سے لگاۓ رکھا۔ اس وقت ہم نے کئ دفعہ اپنی تحریروں میں اس بات کی نشاندہی کی کہ اقتدار ہمیشہ کے لۓ نہیں ہوتا ہے اس لۓ غیر جمہوری روایات کو فروغ نہ دیا جاۓ جوبعد میں آپ کے گلے پڑ سکتی ہیں۔ سڑکیں اور عمارتیں بنانے سے زیادہ لوگوں کو کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرنا زیادہ اہم ہے۔

سابق وزیر اعلی ایک اچھے مقرر ہونے کی وجہ سے اپنے اقدامات کے حق میں دلائل دیتے رہے۔ کیونکہ صاحب اقتدار کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی ہر بات لوگوں کے دلوں میں نقش ہوجاتی ہے اور لوگ اس کو سچ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس وقت صاحب اقتدار کو لوگوں کی آواز سناۓ نہیں دیتی ہے۔ مگر جب اقتدار کا نشہ اتر جاتا ہے تو اصلی تصویر سامنے آنے لگتی ہے۔

حفیظ صاحب کا اقتدار ختم ہوچکا ہے اب ان کی باتوں اور تقریروں کی اہمیت نہیں رہی اب صرف تاریخی حقائق ہی بولتے ر ہیں گے۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ ان کا دور بظاہر جمہوری تھا مگر وہ سینکڑوں غیر جمہوری اقدامات کا مرتکب رہا ہے۔ ان غیر جمہوری اقدامات کا داغ ان کے سیاسی کیرئیر میں ان کے ساتھ رہے گا۔ جس کے لۓ اب کوئی جواز اور بہانہ تراشنا شاید کارگر ثابت نہیں ہوگا۔


اسرار الدین اسرار گلگت بلتستان میں حقوق انسانی کیمشن برائے پاکستان کے نمائیندے ہیں. وہ کالم نگار، مضمون نگار اور سماجی کارکن ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں