Baam-e-Jahan

بروشسکی محفل کا ‘ساقی’

تحریر: گل نیاب شاہ کیسر

 width=

بروشسکی کے معروف شاعر مرحوم بشارت شفیع سے ملنا میرا خواب تھا جو ایک ‘خوابِ بے تعبیر’ ثابت ہوا۔ لیکن میری خوش قسمتی یہ تھی کہ میں شفیع کےہم عصر شعراء سے ملاقات کر پایا اور انھیں سننے کا اور جاننے کا شرف حاصل ہوا۔ ان سب شعراء میں جس شخص سے میری زیادہ گفتگو رہی یا پھر جس کو زیادہ قریب سے جاننے کا موقع ملا وہ شاعر جو خود کو عشاق کا حاکم کہتے ہیں ریاض ساقی ہے۔

یاسین طاؤس میں ثقافتی پروگرام ‘یاسنِ سائل’ کے انعقاد کے بعد میں نے ایک مضمون تحریر کی تھی، جس کے ابتدا میں ایک شخص کا ذکر کیا تھا اس مضمون کا ابتدائی حصہ قارئین کی خدمت میں یہاں دوبارہ پیش کر دیتا ہوں۔ ‘ میں کوئی بھی نیا بروشسکی کلام لکھتا، سب سے پہلے انھیں یاد کرتا۔ سلام کے بعد وہی رسمی گفتگو اور پھر اپنی پسندیدہ دنیا کی طرف راغب ہو جا تے۔ یعنی دنیائے شاعری۔ انھیںکال کرنے کے بہت سارے وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ان کے داد دینے کا انداز بہت متاثر کن تھا۔ داد دیتے ہوئے ایک موضوع سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا جوڑتے ہوئے، جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ۔

شاعری سنانے سے بات شروع ہوتی، پھر نوجوان شعراء کے حوالے سے گفتگو، بروشسکی شاعری میں نئے رجحانات کا تذکرہ، یاسین آرٹس کونسل کے حوالے سے بات چیت اور اختتام پھر ان کی طرف سے خوب صورت کلام پر ہوتا۔’یہ شخص کوئی اور نہیں ریاض ساقی تھا جن کی شاعری سے مجھے جنون کی حد تک محبت ہے۔

گو میں کوئی گلوکار نہیں ہوں، البتہ بروشسکی موسیقی کے فنکاروں اور سننے والوں کے درمیان میں ایک خلا تھی جس کو پر کرنے کی خاطر اور بروشوشعراء کے خوب صورت خیالات عام سماعتوں تک پہنچانے کی غرض سے میں نے اس حسین دنیا میں قدم رکھا تھا۔ بشارت شفیع کے ‘زم بروشسکی’ کے بعد یہ ریاض ساقی کا کلام ‘جا جی’ ہی تھا جو میں نے گایا اور سننے والوں نے پسند کیا۔ ریاض ساقی کی شاعری پہ تبصرہ کرنا میری بس کی بات نہیں ہے البتہ مجھے ان کی شاعری کے بارے میں سوچنا اور ان خیالات سے لطف اٹھانا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میرے ہاتھ میں قلم ہے اور دماغ میں ساقی۔ سو میں لکھنے بیٹھ گیا۔آگے پڑھیئے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سارے لوگ، جن میں میں بھی شامل ہوں، اس بگڑے ہوئے نظام سے تنگ ہیں۔ بد قسمتی سے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جذبات کا بر ملا اظہار بھی ممکن نہیں۔ ان شدید جذبات کے اظہار کے لئے شاعری کا سہارا لیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں ریاض ساقی کے الفاظ بہترین انتخاب ہے۔

ساقی سے میرا تعلق بھی اسی کلام یعنی ‘جاجی’ کی بنیاد پر استوار ہوا۔ اب ذرا غور کرتے ہے کہ اس کلام میں ساقی نے کس خوبی کے ساتھ اس بگڑے ہوئے نظام سے نبرد آزما ہونے کا درس دیا ہے۔ لکھتے ہے:

ان دومر گویا حق چےگویاس باشہ کا آپا
کھو نوشیر گویا حق یایوم قائدہ دوا جا جی

کہ تم مانگو اور مانگتے رہو، تمھیں تمھارا حق کھبی نہیں ملنے والا، یہاں کا قائدہ ہی یہی ہے کہ اگر حق لینا چاہتے ہو تو چھین کر لینا سیکھو۔

اس کے اگلے شعر میں حق اور باطل کے درمیان ازل سے موجود لڑائی کا ذکر کرتے ہے:

کھوتچھنکوشے جنگ باشا کا تے کھل ماناساپی
پھنگ چھنے اٹکوشغانکا ہمیشہ دوا جا جی

کہ یہ سچ کی جنگ ہے اور کھبی بھی نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ اور یاد رکھو کہ جھوٹ اور سچ کی لڑائی ازل سے تھی اور ابد تک جاری رہے گی۔

ریاض ساقی سچ کو ایک عجیب نشے سے تشبح دیتے ہوئے اگلے شعر میں لکھتے ہے کہ:

چھن بر یٹےسقراط اے نقچھیمیلنگمینی
کھوت چھن کوشھے نشہ اکھش نشہ دوا جا جی

کہتے ہے کہ یہ سچ ہی ہے جس کے پاداش میں سقراط کو زہر کا پیالہ پیش کیا گیا اور سچ کا نشہ ہی ایسا مست اور عجیب نشہ ہے کہ سقراط نے ہنستے ہوئے زہر پی لی اور جان دے دی۔

ساقی اپنے نام کی طرح عشق کا جام پلانے میں ماہر ہے تو دوسری طرف ان کی شاعری میں خود احتسابی، ناانصافی، عدم استحکام اور غرور و تکبر جیسی معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی شدید احتجاج پایا جاتا ہے۔

منافقت اور ظالم کا مظلوم کو اپنے چال میں پھنسانے کے عمل سے ساقی خوب واقف دکھائی دیتے ہے اور دشمنِ جاں سے مخاطب ہوتے ہے

نیگی نے موچھایارے ایتا چھئی
ان یہ کے فلجونگاسقایاگیمبا

‘موچھا’ سے مراد برف پڑنے پر یاسین میں بچے کسی اونچی جگہ جیسے کسی چھت پر ایک جگہ سے برف ہٹا کر وہاں گندم کے دانے ڈالتے تھے اور ایک جال نما چیز سے دھاگہ باندھ کر انتظار کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی پرندہ ان دانوں کو کھانے بیٹھ جاتا اس کے اوپر جال گرا کر قید کر لیا جاتا تھا۔ اسی طرح ساقی بھی کہتے ہی کہ تم مجھے دانوں کا لالچ دے کر مجھے قید کرنا چاہتے ہو۔ میں سمجھ چکا ہوں کہ یہ لالچ در اصل میری جان لنے کے لئے تمھارا بچھایا جال ہے۔

ساقی شدتِ تنہائی کی انتہائی کیفیت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہے اور لکھتے ہے

آغانِک ٹک کشھےاشھیچن دوا
جا آیا نال آچومدیشیچن دوا

کہ میں تنہا ہوں اور یہ تنہائی مجھے کھائیے جا رہی ہے۔ اور اب حالت یہ ہے کہ خود میرا سایہ بھی مجھ سے خوف کھا رہا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے اگر ہم آج کی دنیا پر غور کرے تو واقعی ہر انسان تنگ ہے اور اپنی تنہائی کا رونا رو رہا ہے۔ گو ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا ایک موبائل فون میں سمیٹ کر رہ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم خود سے اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے میلوں دور ہوگئے ہیں۔ یہ تنہائی کی انتہائی کیفیت ہے جس کا ذکر ساقی نے کیا ہے۔
اگلے شعر میں اسی کیفیت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہے:

دنگ اے بایشانادولاھلچیمو جا
جا اچی ہاؤ نیتےغاسیچون دوا

ایک ایسی کیفیت کی ترجمانی کر رہے ہے کہ جس میں انسان عالمِ خیال میں آنکھیں چھت پہ پیوست کئے رکھ دیتا ہے اور خود سے بے خبر ۔ کہتے ہے کہ میری اس حالت کو دیکھتے ہوئے نیند بھی میرا مزاق اڑا رہی ہے، مجھ پہ ہنسے جا رہی ہے۔

ساقی اس غزل کے مقطع میں غرور و تکبر سے لڑنا اپنی فطرت کے عین مطابق سمجھتے ہے، کہتے ہے

چے گو ناموسےچھرکوخیرومنوتے
نشہ ریاضے کا توریچن دوا

کہ تمھارے غرور کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے میری حالت سنبھل جاتی ہے، میں ہوش میں آ جا تا ہوں۔ یعنی درس یہی ہے کہ مغرور کو یہ بات باد دلانا لازمی ہے کہ ‘تو خاک میں بھی خاک، دونوں خاک کے پتلے’، ورنہ غرور حد سے بڑھ جائے گا جو کہ اجتماعی طور پر معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔
ریاض ساقی نے زندگی کے ہر پہلو پر اپنی شاعری کے ذریعے روشنی ڈالی ہے اور ان سب میں ایسے کمال اور پرلطف شعر کہے ہے کہ بروششسکی زبان تا حشر ساقی کے خیالات اور الفاظ کا معترف رہے گی۔ ساقی کے ہاں الفاظ کا چناؤ اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ جب اپنے محبوب سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہے تو بروشسکی میں موجود ایسے پیار بھرے الفاظ ڈھونڈ نکالتے ہے کہ عقل دنگ رہ جاتا ہے۔۔ شعر دیکھیئے

جا کا گو ہا چے آفت ہیرسےدیونزچم آئی یش
جو جا خوشی فاتاکی، جا مہرے دخنا آنے با

اس شعر میں ہی دیکھ لیجیے کہ ‘خوشی فتاکی’ ، ‘مہرِدخنا’ جیسے خوب صورت الفاظ کا استعمال بہت کم ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ‘تختِ خاوند’، ‘تختِخنذا’، ‘اسومن سا’ اور دیگر ایسے الفاظ ہے جو ساقی کی شاعری کو نکھار دیتے ہیں۔
ادھورا ہونے کا خیال ہمیشہ شاعر کے سر پہ سوار رہتا ہے اور جب وہ محبوب کو اپنے پاس پاتا ہے تو خود کو مکمل محسوس کرتا ہے، وقاص عزیز صاحب کا ایک شعر یاد آرہا ہے، لکھتے ہے

تو مکمل کو بھی ادھورا کر
جا بچھڑے کا شوق پورا کر
ایسا ہی خیال ساقی کو بھی آتا ہے جب اس کا محبوب اس کے پاس نہیں ہوتا، محبوب کے میسر ہونے کو وہ اپنے حسن کی تکمیل سمجھتے ہوئے کہتے ہے
ہزار جا نسقاراکین اکھر جا کھنڈاروم یا با
جو جا چے گیم مائیمی جا حسنِ گہنا آنے با

کہ ہزار بار میں خود کو سجاتا ہوں، سنورتا ہوں، لیکن دیکھو کہ میں لاکھ کوشش کے باوجود ادھورا ہوں۔ تم آ جاؤ کہ میری خوب صورتی، میرا حسن فقط تمہارے ہونے سے مکمل ہے۔ ایک اور غزل کے شعر میں ساقی پھر اپنے محبوب سے اپنے روایتی انداز میں مخاطب ہے، لکھتے ہے

ہالنز با، اسومون با، سے سا با ان
پارینینگ اے قشیاناس خانہ با ان

کہ چاند بھی تم ہو، ستارہ بھی تم ہو، سورج بھی تم ہو۔ تمہاری تعریف مجھ سے کیا بیان ہو کہ تمھاری رہائش اس جگہ ہے جو جگہ صرف پریوں کے لئے مختص ہے۔ اسی غزل کے اگلے بند میں ساقی اپنے محبوب سے سوال پوچھتے ہے

جا سیا خیرہ با ان نوکوئیچے
سن جا نائیچ بوتا دندنا با ان

کہ میں تو تمھیں دیکھ کر اپنا آپ بھول چکا ہوں، ریزہ ریزہہوچکا ہوں۔ تم آخر کیوں شش و پنچ کا شکار ہوئے ہو۔ شاعر اس سب معاملے کو پرکھتا اور خوب سمجھتا بھی ہے لیکن یہ حسنِ شعر و سخن ہے کہ شاعر اپنے محبوب کو خود سے زیادہ جاننے والا اور زیادہ مضبوط شے سمجھتا ہے۔

سب لکھاریوں کی طرح ساقی بھی قلم کی خدمتگاروں میں شامل ہونے پر مطمعن اور خوش ہے۔ لیکن اس راہ میں پیش آنے والی مصائب کا سامنے کرنے کے لئے بھی سینہ تان کر کھڑا ہے، جس کا اندازہ ساقی کے اس مطلع سے لگایا جا سکتا ہے، لکھتے ہے

یمیلنگنییمچھایمبا، چھن چھایمبا
ماچھی قاقم چھایمبا، چھن چھایمبا

کہ میں زہر کو شکر سمجھتا ہوں تو ٹھیک سمجھتا ہوں اور پھر اگر شہد کو میں کڑوا قرار دیتا ہوں تو بھی ٹھیک ہی کہہ رہا ہوں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہی سچ لکھنے کے قابل ہوسکتا ہے جو اس نظریے کا قائل ہے۔ کیونکہ راہِ سچ خاروں سے بھرپور ہی ہوتا ہے اور ناقدروں کی طرف سے آئی ہزاروں تلخیاں سہنی پڑتی ہے۔ تلوار کے مقابلے اپنے قلم کی طاقت پر ساقی کو بھی ناز ہے، کہتے ہے

جا تھویک لپ نیتے قلم دییاروم
جا اکھر تھم چھایمبا چھن چھایمبا

کہ میں نے بندوق کے اندھے وار سے راہ جدا کی ہے اور قلم پہ ایمان رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے میں خود کو شاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس میں کوئی مبالغہ آریائی نہیں ہے۔ اسی غزل میں ساقی نے غرور کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے تو وہی یارِ جاں کی یاد سے بھی بے غافل نہیں ہوئے ہے۔

ساقی کی شاعری میں رشتوں کی قدر اور محبت کی تلقین بھی بارہا دیکھنے کو ملتی ہے۔ اردو شاعری اور اس کے بعد بروشسکی شاعری میں بھی ماں کی شان میں کلام کثرت سے ملتے ہیں۔ لیکن ساقی کے ہاں ماں کے ساتھ ساتھ والد سے محبت کا اظہار بھی بہت ہی منفرد انداز میں پایا جاتا ہے۔ کہیں وہ والد کی موجودگی میں اولاد کی مستی کا زکر کرتے ہے تو کہیں والد کے ہاتھوں بنائی چیزوں کی مہک سے لطف اٹھاتے ہے۔

ساقی اپنے والد کے ساتھ بیتائےہوئے وقت کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہے
دیچھہاریج آ نیسکینے چھیو نامہکانٹیئے بوس
ہائے دریغا آنے نا تاتی کاٹ بسلدیچوم

کہ اب کہاں وہ زمانہ کہ مسکراتےہوئے، خوشی خوشی مکئی کا گھٹا لا کے والد کے ساتھ ایک جگہ جمع کرتے تھے۔ وقت گزر چکا ہے لیکن یاد باقی ہے اور شاعر کے خیال میں وقت ساکت ہے وہی رکا ہوا ہے۔

پھتینگ نے دئیے دئیےآییتینگ شکر تاتی جندو بائے
باشا نے تھارس والی کا دی اییابسارچیمی

ایک منظر جب والد فصل کی کٹائی میں مصروف ہے۔ ساقی اس منظر میں کام پر بلانے والوں سے مخاطب ہے کہ ابھی اس بچے کو کچھ نہ کہو کہ اس کا شفقت کی خوشبو سے بھرا، اس کا والد زندہ ہے۔ جب باپ دنیا سے چلا جائے گا تو کام کرنے بچہ خود آئے گا۔ اس شعر میں مستی، محبت اور پھر تڑپنے کے احساس کو کس خوبی سے ساقی نے بیان کیا ہے اہل دل اندازہ لگا سکتے ہیں۔
امید کی دیپ کو جلائے رکھنا اس دور کے حالات کو دیکھتے ہوئےناگزیر ہے۔ کیونکہ اس دور میں نفسانفسی ہے، قتل و غارت ہے، بے اتفاقی اور اعتماد کا فقدان جیسے اور بھی بہت سی وبائیں ہیں۔ ان سب سے نجات ممکن نہیں البتہ ان کا مقابلہ امید کی شمع کو راشن کرتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ ساقی کی شاعری میں امید کا سورج بھی ہمیشہ طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لکھتے ہے

جا بوکوماشقممائیمی، جا ایچومدوگارچیمی
آس الےبشچک دامن چم باشہ کا اکارچیمی

کہ میرا بویا اگے گا اور میرا جلایا جلے گا۔ میرے دل میں خدا سے امیدیں وابستہ ہے جو کبھی بھی مر نہیں سکتیں۔ اس عہد میں ہر شخص اگلے لمحے سے نااشنا ہے اور خوف کا شکار ہے۔ اس پس منظر میں یہ شاعر کی زمہ داری ہے کہ وہ عام لوگوں کو حوصلے کی تلقین کرے لیکن اس سارے معاملے میں حقیقت سے منہ چھپائیے بھی نہیں۔
ریاض ساقی کی شاعری کے بارے بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ادب شناس اور بروشسکی زبان کو سمجھنا شرط ہے۔ بد قسمتی سے میں اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا، اس لئے اس سے زیادہ کچھ لکھنا شاعر کے شان میں گستاخی ہوگی۔ آخر میں ریاض ساقی اور اہل زبان سے اپنی غلطیوں کے لئے معزرت طلب کرتا ہوں۔ دعا ہوگی کہ اس عظیم زبان کی خدمت کرنے والوں کے قلم کی طاقت میں مزید اظافہ ہو۔


گل نیاب شاہ کیسر نوجوان صحافی اور گلوکار ہیں. وہ ہائی ایشیاء ہیرالڈ میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں