تحریر: کریم اللہ
چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ہمارے ذرائع کے مطابق تیس جون کو سارے ریکارڈ داخل دفتر کیا جائے گا اس کے بعد زمینوں کے مسئلے پر کسی قسم کی رد و بدل کا امکان نہیں۔ ریاست چترال کا پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت میہتار نے اپنے زیر انتظام سارے جائیداد کو ڈاکومینٹڈ پروٹیکشن دی تھی. تاہم اسی الحاق کے دوران ریاست کے مختلف حصوں میں موجود گورنروں کے زیر انتظام قلعوں اور دوسرے جایئدادوں کے حوالے سے شاید کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
1969ء کو چترال سے ایف سی آر کا خاتمہ کرکے اسے باقاعدہ مالاکنڈ ڈویژن کا ایک ضلع قرار دیا گیا۔ جب 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انہوں نے پاکستان سمیت چترال، ہنزہ، اور دیگر ریاستوں اور جاگیرداری و سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا اور 1974ء تک چترال میں شیخ رشید کمیشن کے تحت زرعی اصلاحات متعارف کئے گئے۔ 1975ء کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا.
اس نوٹیفکیشن کے آرٹیکل 15 کے مطابق وہ سارے قلعے جو گورنر بطور سرکاری دفتر استعمال کیا کرتے تھے صوبائی حکومت کے حوالےکئیے گئے۔
آرٹیکل 16، 17, 18 کے مطابق سارے دریا، ان کے کناروں پر مشتمل زمینں، پہاڑ، چراگاہیں، شکارگاہیں، پولو گراؤنڈز، سڑکیں وغیرہ صوبائی حکومت کی ملکیت قرار دی گئی۔
نوٹیفکیشن کے آرٹیکل 15 کے علاؤہ باقی سارے حصوں پر کم و بیش عمل درآمد ہوا. تاہم آرٹیکل 15 یعنی گورنری قلعوں کے حصول میں حکومت ناکام رہی۔ ان میں قلعہ مستوج، قلعہ تورکھو، قلعہ دراسن موڑکھو، قلعہ دروس اور قلعہ شغور لٹکوہ شامل ہیں۔ اب چونکہ چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے تاہم حکومت وقت اور متعلقہ محکمے اب بھی اس آرٹیکل پر عمل درآمد میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے ذرائع کے مطابق سیٹلمنٹ کے دفتر سے کئی مرتبہ ان قلعوں کے مکینوں سے اسی بابت جواب طلب کیا گیا مگر کسی قسم کا جواب نہیں ملا۔
ان دنوں متعلقہ ادارے نے ایک مرتبہ پھر قلعہ مکینوں کو لکھا ہےاور اپنی پوزیشن واضح کرنے پر استفسار کیا ہے۔ اور کوئی قانونی دستاویز یا ثبوت پیش نہ کرنے کی صورت میں ان قلعوں کو سرکاری کھاتے میں درج کیا جائے گا۔
ایسے وقت میں کمیشنر مالاکنڈ ڈویژن کے دورہ چترال کو سماجی حلقے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ کمیشنر کا ایک قلعہ مکین کے ساتھ ذاتی روابط ہے جس کی وجہ سے پچھلے سال ڈی سی چترال پر دباؤ ڈال کر ان کے دو انتظامی فیصلوں کو رد کردیا تھا۔
سماجی حلقوں میں چہ میگوئیاں جاری ہے کہ شاید کمیشنر کو اس لئے یہاں لایا گیا تاکہ وہ سیٹلمنٹ آفس(دفتر) چترال پہ دباؤ ڈال کے قلعے ان کے مکینوں کے کھاتے میں ڈالے۔ ایسا ہونے کی صورت میں 1975ء کے نوٹیفیکیشن کے باقی مانندہ شقوں کی کیا پوزیشن ہوگی۔۔۔؟؟
اس نوٹیفکیشن کے آرٹیکل 15 کے خلاف ورزی کی صورت میں ایسا پینڈورا بکس کھلنے اور گھمبیر قانونی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا، کیونکہ بعض حلقے اس فیصلے کو بطور نظیر پیش کرکے آرٹیکل 16, 17 اور 18 کو بھی چیلنج کرسکتے ہیں۔ اور ایسا ہی ایک کیس ہائی کورٹ میں زیر سماعت بھی ہے۔ یوں چترال میں نہ ختم ہونے والی لڑائی جھگڑوں اور فسادات پھوٹنے کا امکان ہے۔ ایسی صورت میں اس کی تمام تر زمہ داری حکومت، انتظامیہ اور متعلقہ محکمے پہ عاید ہوگی۔
کریم اللہ چترال میں ہائی ایشاء ہیرا؛د میڈیا گروپ کے نمائیندہ ہیں