اسرارالدین اسرار
گزشتہ کالم میں ہم نے اس بات کا جاٸزہ لیا تھا کہ سابق وزیر اعلٰی حافظ حفیظ الرحمن کے پانچ سالہ دور اقتدار میں گلگت بلتستان میں آزادی اظہار راۓ جیسے بنیادی جمہوری حق پر کیسے قدغنیں لگاٸی جاتی رہیں۔
ان سطور میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ حفیظ کے دورحکومت میں منتخب وزراء یعنی کابینہ اور سنئیر پارٹی ورکرز اور سیاستدانوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ۔
حفیظ دور میں ان کی پارٹی کے سنیئر راہنما اور ڈپٹی سپیکر جی بی اسمبلی اس بات پر ہمیشہ ناراض رہے کہ ان کا حلقہ مکمل طور پر نظر انداز رہا اور ان کو اہم فیصلوں سے دور رکھنے کے لۓ ڈپٹی سپیکر جیسا غیر موثر عہدہ دیکر مصروف رکھا گیا۔ یہاں تک کہ اقتدار کے آخری دنوں میں اپنے ایک بیان میں سابق ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ پانچ سالہ اقتدار میں سڑکیں بنانے کے لۓ لائی گئ جدید مشنری کے فوائد سے ان کے حلقہ کے عوام محروم رہے۔
کابینہ کے اندرونی جگھڑے، وزراء کی بجاۓ بیورکریسی کے ذریعے حکومت چلانے اور ون مین شو کی کہانیاں گذشتہ پانچ سالوں میں وقتا فوقتا گردش میں رہیں مگر اس سارے کھیل کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب کابینہ کے سنئر اور قابل ترین وزیر ڈاکٹرمحمد اقبال نے اس شکوے کے ساتھ مستفعی ہونے کا اعلان کیا کہ ہوم سکریٹری نے کورونا کی وباء کے ابتدائی دنوں میں لاک ڈاؤن سے متعلق کابینہ کے فیصلے کو رد کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جوکہ منتخب حکومت کی توہین ہے۔ ڈاکٹر اقبال کا استعفی منظور نہ کرنے اور ان کو دوبارہ منانے کے عمل سے قطع نظر اس واقعہ پر وزیر اعلی نے کھل کر بیوروکریسی کا ساتھ دیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ حفیظ کے پانچ سالہ دورحکومت میں کابینہ محض شو پیس تھی۔ کیونکہ اصل کام وزیر اعلٰی کی قیادت میں بیوروکریسی کر رہی تھی۔ گویا منتخب کابینہ کی جگہ بیوروکریسی نے لے لیا تھا۔ جمہوریت کے دعویدار وزیر اعلٰی کا یہ عمل حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ افسوسنا ک بھی تھا۔
وزیر اعلٰی کا یہ غیر جمہوری رویہ یہاں تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کی جماعت کے اندر بھی ملک مسکین، سلطان مدد، بشیر احمدخان، سلامت جان اور پارٹی کے دیگر کئ سینئر اورمنجھے ہوۓ سیاستدانوں کو یکسر نظر انداز کرکے سیاسی طور پر نابالغ اور جی حضوری کرنے والوں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئ جن کی وجہ سے وقتی طور پر حفیظ پارٹی کے اندر کی مخالفت سے محفوظ تو رہے مگر دیرپا طور پر مضبوط اور جاندار سیاستدانوں کی مدد اور رہنمائی سے محروم ہوگۓ جس کا نقصان نہ صرف ان کی پارٹی کو ہوا بلکہ گلگت بلتستان میں ایک سیاسی جماعت کی کمزوری بیوروکریسی کی مضبوطی کا باعث بنا۔
سلطان مدد اور ملک مسکین زندگی کے آخری لمحات تک حفیظ کی بے وفائی پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ یہ دونوں منجھے ہوۓ سیاستدان حفیظ کے اقتدار کے آخری وقت میں داغ مفارقت دے گۓ۔ جبکہ سنئیر وزیر حاجی جانباز خان بھی کئ دفعہ حفیظ کے اقدامات سے ناراضگی کا اظہار کرتے رہے اور وہ بھی اب اس دنیا میں نہ رہے۔ یہ تینوں راہنما نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ گلگت بلتستان کا قیمتی اثاثہ تھے، مگر حفیظ نے اپنے دوراقتدار میں ان تینوں مرحومین کو وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے۔
حفیظ کے دور اقتدار میں سکردو اور بعد ازاں دیامر کے منتخب ممبران اسمبلی کی شکایات بھی گردش میں رہیں۔ یہ خبر بھی زبان زد عام رہی کہ پارٹی کے ناراض اراکین اسمبلی اندرون پارٹی تبدیلی لاکر مرحوم جانبازخان کو وزیر اعلٰی بنانے کے لۓ لابنگ کر رہے ہیں مگر بعد ازاں حفیظ نے کسی طرح اس صورتحال پر قابو پایا تاہم شکایات کا سلسلہ جاری رہا اور دیامر کے منتخب اراکین اسمبلی الگ کئ مٹینگز کرتے ہوۓ بھی نظر آۓ۔
یہی پر بس نہیں کیا بلکہ حفیظ نے اپنی کابینہ کی واحد خاتوں وزیر ثوبیہ مقدم پر یہ الزام لگا کر وزارت سے فارغ کیا کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر بیرون ملک دورے پر گئ تھی۔ اس الزام میں صداقت تھی یا نہیں اس سے قطع نظر وہ حفیظ کی کابینہ کی سب سے متحرک اور باعمل وزیر ثابت ہوئی تھی۔ انہوں نے نہ صرف دیامر کے لۓ بڑے منصوبے تجویز کیۓ تھے بلکہ گلگت بلتستان کی خواتین کی ترقی کے لۓ ان کے اقدامات قابل تحسین تھے۔ وہ ہر روز ایک نیا ٕ عمل کر کے دیکھاتی تھی۔ جی بی میں جگہ جگہ وہ پہنچ جاتی تھی اور انہوں نے سب سے بڑھ کر پہلی دفعہ اپنی پارٹی کی خواتین ونگ کی صدر کی حثیت سے خواتین ورکرز کنونشن کا شاندار انعقاد کرکے دیگر تمام جماعتوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا ۔ سابق وزیر اعلی کو اپنی کابینہ میں ایسی فعال وزیر کا ہونا برداشت نہیں ہوا اور انہوں ان کو وزرات سے فارغ کردیا۔
یوں وزیراعلٰی تن و تنہا چند غیر منتخب مشیروں کے ساتھ مل کر سارا نظام چلانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان مشیروں اور ٹیکنوکریٹس کی حیثیت وزیراعلٰی کے ترجمانوں سے زیادہ نہیں تھی۔ فیصلہ سازی کا اختیار وزیر اعلٰی کو تھا جب کی اس کی راہنمائی بیوروکریسی کرتی تھی۔ گویا منتخب کابینہ عملی طور پر غیر فعال اور بے اختیار تھی۔ اس لۓ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حفیظ پر ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں کی تقسیم میں بیوروکریسی کی مدد سے بھاری کمیشن وصول کرنے کا الزام بھی لگتا رہا۔
مجموعی طور پر حفیظ غیر جمہوری اقدامات کے سہارے حکومت کرتے رہے جس کا نقصان ان کی جماعت اور جی بی کی سیاست کو ہوا۔ بظاہر جمہوریت کی پرچار کرنے والے حفیظ کے مزکورہ تمام غیر جمہوری رویے غیر متوقع تھے۔
سیاسی جماعتوں کو یہ اکثر شکایت ہوتی ہے کہ بیوروکریسی ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی وقتی فائدے کے لۓ اپنی سیاسی جماعت کے بااثر اراکین اور منتخب اراکین کو دیوار سے لگانے اور پارٹی کے اندر غیر جمہوری رویے ہی بیوروکریسی کو مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اپنے اقدامات سے بیوروکریسی کو مضبوط کرکے بعد میں اس پر شکوہ کرنا ایک دانشمند سیاستدان کا کام نہیں۔ حفیظ کے غیر جمہوری اقدامات کا پچتاوا ان کو تب ہوگا جب ان کے اقتدار کا نشہ مکمل اتر جاۓ گا۔
اسرارالدین اسرار حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے گلگت بلتستان میں نمائندے ہیں۔ وہ سینئر صحافی و کالم نگار ہیں.