فرمان بیگ
گزشتہ مضمون میں میں نے گلگت بلتستان، بالخصوس ہنزہ گوجال میں حکومتی و بینلاقوامی اداروں کی جانب سے ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں اب تک جو اقدامات آٹھائے گئے ہیں ان کا جائزہ لیا تھا۔ اس مضمون میں عوامی سطح اور اداروں کے ذریعےمقامی لوگوں کے مشترکہ زمینوں، قدرتی وسائل اور چراگاہوں پر ملکیتی حقوق اور جنگلی حیات اور ماحولیات کے تحفظ اور زندگی کے تنوع کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں چالیس سالوں سے جاری جدوجہد کا جائزہ لیں گے اور آنے والے وقتوں میں مشکلات اور مسائل کا ذکر کریں گے۔ اس سلسلے میں دو کمونٹی اداروں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.
1. خنجراب دہی تنظیم یا خنجراب ولیج آرگنائزیشن (کے وی او): کے وی او کو خنجراب نیشنل پارک کا قیام اور چراگاہ کے مالکانہ حقوق سے مقامی آبادی کی جبری بے دخلی اور غیر قانونی قبضے کے نتیجے میں1989 میں قائم کی گئی تھی۔ تب سے آج تک یہ تنظیم نہ صرف مقامی آبادی کے حق ملکیت کے حصول کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہے بلکہ قدرتی وسائل کے پائیدار تحفظ اور جنگلی جانوروں کے قانونی شکار کو منظم کرانے اور تنظیم سے وابستہ سات دہاتوں کےمکینوں کی معاشی ضرورتوں کو کسی حد تک پورا کرنے میں بھی بھر پور کردار ادا کررہی ہے۔ کے وی او نے کمیونٹی کے تعاون سے خنجراب بفرزون کو جنگلی جانوروں کے تحفظ کی خاطر کمیونٹی کنزرویشن ایریا بنایااور ان اقدامات کی وجہ سے 1998 میں ہمالائی آئبکس جسےکیل بھی کہا جاتا ہے، کا قانونی شکار ممکن ہوا جو متبادل روزگار کے ساتھ ساتھ خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی تحفظ کو بھی یقینی بناتا ہے۔
دوسری جانب کے وی او نے مقامی لوگوں کے حق ملکیت کی قانونی جنگ لڑ کر خنجراب نیشنل پارک کے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے۔مگر المیہ یہ ہے کہ آئے روز سرکاری اہلکار واشرافیہ طبقہ کے با اثر افراد کی جانب سے طاقت، اثر و رسوخ اور دولت کے زور پر کبھی پارک کے اندر بڑے بڑے ہوٹلوں کی تعمیر کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو کبھی کنزرویشن ایریا میں معدنیات نکالنے کے لیے مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف لیز حاصل کرنےاور ان وسائل پر زبردستی قابض ہونے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
کے وی او اپنے قیام سے اب تک ان تمام غیر قانونی اقدامات اور ناجائز قبضے کے خلاف نہ صرف عوامی سطح پر بھر پور جدوجہد کررہی ہے بلکہ قانونی محاذ پر بھی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔
2. شمشال ٹرسٹ برائے قدرت (Shimshal Trust for Natur SNT): شمشال کے عوام بھی اپنے پشتنی زمینوں، قدرتی وسائل، اور چراگاہوں کے تحفظ کے لئے گزشتہ تین دہایوں سے جدوجہد میں مصروف ہے۔ ایس.این.ٹی کاقیام 90 کی دہائی میں اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب حکومت نے خنجراب نیشنل پارک کے حدود کو 500 مربع کلو میٹر سے بڑھا کر 2،300 مربع کلومیٹر کرنے کا فیصلہ کا۔ جس کی وجہ سے پورے شمشال کی وادی اس کے چراگاہوں، اور جنگلات کو نیشنل پارک کا حصہ بنانا تھا۔اس سے شمشال کے عوام میں شدید بے چینی پھیل گیا اور انھوں نے نیشنل پارک اور اس کے منیجمینٹ کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ آئی.یو.سی.این اور حکومتی اداروں نے ہر قسم کے دباؤ ڈالنے اور دھونس دھمکی کے ذریعے مجوزہ پارک کا انتظا می منصوبہ نافذ کرنے کی کوشیش کیں، لیکن عوام نے اپنے اتحاد اور شعور کے ذریعے اس کی مزاحمت کیں اور خود اپنا متبادل منیجمینٹ پلان بنایا اور گفت و شنید کے ذریعے حکومتی اہلکاروں کو قائل کیاکہ مقامی لوگ جو صدیوں سے وادئی شمشال میں رہ رہے ہیں اور قدرت اور جنگلی حیات کے درمیان ایک بفر بنایا ہوا ہے وہ اچھی طرح سے اس توازن کو برقرار رکھ سکتے ہیں، اور پائدار طریقے سے اپنے ذریعہ روزگار اور ماحولیات کے تحفظ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کمونٹی منیجڈ نیشنل پارک کا ایک نیا تصور پیش کیا جو کامیاب رہا اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی نافذ کیا گیا۔
شمشال کے عوام نے نہ صرف جنگلی حیات کے تحفظ کو روائتی انداز میں یقینی بنایا بلکہ اپنے تمام مشترکہ زمینوں، چراگاہوں، اور اس کے اندر موجود معدنیات و دیگر قدرتی وسائل کو بھی وقف کے قانون کے تحت محفوظ بنایا۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص انفرادی سطح پر یا گروپ کی شکل میں یا غیر مقامی کوئی سرمایہ کار شمشمال کنزرویشن ایریا کے اندر کسی بھی قسم کی کمرشل یا تفریحی سرگرمیاں نہیں کر سکتا جس سے ماحولیات اور قدرتی حیات کے متاثر ہونے کا خظرہ پیدا ہو سکتا ہو۔
اسی وجہ سے انھوں نے بہت سے بااثر لوگوں کو کنزرویشن ایریا میں کانکنی اور دیگر سرگرمیاں نہیں کرنے دیا ہے اور اس قسم کی کوشیشوں کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جو مقامی لوگوں نے صدیوں سے زیر استعمال زمینوں اور وسائل پر جابرانہ قبضے کے خلاف عوامی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج ایک بار پھر سے سرمایہ دار وں اور ان کے گماشتے بزور طاقت ریاستی مشنری کے زور سے مقامی لوگوں کے زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
تاریخی حقائق اور زمین کی ملکیت
سابقہ ریاست ہنزہ کے تاریخی حقائق سے نابلد کچھ عناصر ریاستی اداروں کی سرپرستی اور سرمایہ کے زور پر ہنزہ کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سابقہ ریاست ہنزہ کے تین حصے تھے – شیناکی یا ہنزہ پائین، سنٹرل ہنزہ اور گوجال یا ہنزہ بالا۔ ان اکائیوں کے اندر موجود گاؤں یا علاقے کو ریاست ہنزہ نے امور حکومت چلانے اور مالیہ کی وصولی کی خاطر سرحدیں یا حدود معین کئے تھےان حدود کے اندر موجود چراگاہوں، اور زمینوں کی آباد کاری کی خاطر ہنزہ بھر سے لوگوں کو لا کر ان سے کام لیا جاتا تھا۔ انہی لوگوں سے نہر نکلوایا جاتا اور زمینوں پر لوگوں کو بسایا جاتا۔ زمینوں اور چراگاہوں کےمالکانہ حقوق کے عوض سابق ریاست کے حکمران عرصہ نوسوسال سے لوگوں سے بیگا ر میں کام لیتے اور مالیہ کی صورت میں مختلف قسم کے ٹیکسس جن کی تعداد گوجال میں ایک درجن سے زیادہ تھےوصول کرتےتھے ۔سترکی دہائی میں ریاست ہنزہ کے خاتمہ کے ساتھ مالیہ اور بیگار کا خاتمہ ہو گیا ۔
ان حقائق کی روشنی میں پہاڑ کی چوٹی سے دریائے کے کنارے تک تمام اراضی ہنزہ کے تینوں اکائیوں کے لوگوں کی ملکیت ہیں۔ کیوں کی انھوں نے اس کی قیمت ادا کیں ہیں ۔جس کی بنیاد پر ہنزہ گوجال میں خالصہ سرکار کا وجود نہیں اور نہ آج تک سیٹلمینٹ ہوئی ہے۔ زمینوں، جنگلات اور دیگر قدرتی وسائل کی ملکیت روائیتی قوانین کے تحت تعین ہوتا ہے۔ انہی حقائق کی بنیاد پر ماضی میں بھی اور ابھی تک ہنزہ گوجال کے پشتنی باشندے اپنے زمینوں کو قابضین سے بچانے کی خاطر قانونی جنگ لڑرہے ہیں جو آج تک جاری ہیں.
معدنی وسائل کی لوٹ
حالیہ چند سالوں سےگلگت بلتستان میں معدنیات کا کاروبارکرنے اور کانکنی کی غرض سے سرمایہ داروں اور کچھ ریاستی عسکری اداروں نے ایک طرح سے یلغار کیئے ہوئے ہیں۔ محکمئہ معدنیات کے نااہل اور بدعنوان اہلکاروں نے تقریباً تمام اضلاع میں سارے پہاڑ اور اراضی لیز پر فروخت کئے ہیں۔ گلگت بلتستان کا شائد ہی کوئی پہاڑ یا زمین بچا ہو جس پر کان کنی کے لیز حاصل کرنے کے لیے درخواست نہ دئے گئے ہوں۔
اس طرح کا ایک لیز کئی سال پہلے خیبر گوجال میں ماربل کی کان کنی کے لیے عین الحیات نامی شخص نے حاصل کرلیاتھا اور گاؤں کے لوگوں کےتحفظات دور کئے بغیر زبردستی کام شروع کرنا چاہ رہاتھا. اس پر لوگوں نے عدالتی راستہ اپنایا اور بلآ خیر فیصلہ لوگوں کے حق میں آیا۔
گزشتہ کئی سالوں سے گوجال میں معدنیات کی کان کنی کے لیز غیر مقامی افراد کے نام جاری ہورہے ہیں جس سے علاقے میں بےچینی پیداہو رہی ہے۔ دوسری جانب سیاحت اور سی پیک روٹ کے بن جانےسے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے مقامی لوگوں کے زمینوں کو خرید نا شروع کئے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹل تعمیر ہورہے ہیں۔ سرمایہ داروں نے تمام کاروبار، ٹرانسپورٹ، معدنیات، سیاحت اور پاک چین سرحدی تجارت پر رفتہ رفتہ قبضہ کرنا شروع کیا ہیے. جس کی وجہ سے بھی علاقے میں بے چینی کا پھیلنا قدرتی امر ہے۔ مقامی لوگوں کے وسائل چھنے جارہے ہیں. غیر مقامی لوگوں کو بغیر ماحولیاتی سروے کے انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی اجازت نامہ جاری کررہاہے یہ جاننے کی زحمت کئے بغیر کہ گوجال،گلگت بلتستان وائلڈلائف ایکٹ کے تحت کمیونٹی کنزرویشن ایریا قرار پایاہے جہاں قدرتی ماحول کوبرقرار رکھنے اور جنگلی جانوروں کی افزائیش اور تحفظ پر مقامی لوگوں کی محنت اوربین الاقوامی ادروں کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں.
سال ہاسال کی محنت اور بین القوامی ماحولیاتی ادروں کی کوششوں سے قدرتی وسائل کا کامیاب تحفظ ممکن ہوا ہے۔ معدنیات سے پیدا ہونے والے مضر اثرات واضح ہے . جہاں بھی کان کنی کی گئی ہیں معدنیات کی دریافت سے نہ تو علاقے کی حالت بدلی ہے اور نہ ہی مقامی لوگوں کی معیشت پرکوئی مثبت اثرات رونماہوئے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کی صحت اور ماحول پر اسکی منفی اثرات پڑے ہیں۔
ابھی حال ہی میں فر نٹئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیواو ) نے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر اور کسی تحریری معاہدہ کے بغیر وادی چیپورسن میں یشکوک نامی جگہ پر کان کنی کی غرض سے لیز حاصل کرلیا ہے. اور گزشتہ مہینے جب کہ پورا علاقہ کورونا کے عالمی وباء کیوجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور سب کو انسانی زندگیوں کو بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے، ایف ڈبلیو او والے بھاری مشینری کو لے کر چپورسن پہنچ گئے اور کام شروع کرنےکی کوشش کیں جس کو عوام نے اپنی تاریخی اتحاد اور شعور کی طاقت سے روکا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، تاریخی حقائق کے مطابق سابق ریاست ہنزہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی پہاڑ کے چوٹی سے دریائے کے کنارے تک تمام اراضی بشمول پہاڑ ، دریا، چراگاہیں وہاں کے باشندوں کی ملکیت قرار پایا۔ مذکورہ زمین بھی چیپورسن کے عوام کاپشتنی رقبہ ہے عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے تحفظات کو دور کیا جائے اور درجہ ذیل نکات کی بنیاد پر اور باعزت طریقے سے ان کے ساتھ معاہدہ کیا جائے ۔
1. لیز چیپورسن کے مشترکہ عوامی ادارے کے نام جاری کیا جائے –
2. ماحولیات اور جنگل حیات کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی خود مختار ادارے کے ذریعے کان کنی کا ماحولیات پر پڑنے والا ممکنہ اثرات کا سروے کرایا جائے ۔
3. چیپورسن کے عوام کو رائلٹی کی مد میں اکیاون فیصد حصہ دیا جائے۔
4. کا نکنی کے زیر استعمال آنے والےزمین اور راستےکے لئے استعمال میں آنے والے زمین کا معاوضہ اور کرایہ عوام کو ادا کیا جائے۔
چیپورسن کے عوام کےمطالبات نہ صرف جائز ہیں بلکہ بین القوامی اور ملکی قوانین کے مطابق بھی ہیں۔ لہذا عوامی ملکیتی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے فوری طور پر نہ صرف ایف ڈبلیو او کو جاری کی گئی لیز بلکہ وہ تمام لیزز جو غیر مقامی افراد اور سرمایہ کاروں کو جاری ہوئے ہیں کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور عوامی مطالبات کی روشنی میں لیز مقامی باشندوں کے بنائے گئے اداروں کے نام جاری کیا جائے .
بین القوامی اور ملکی قوانین کی روح سے مقامی لوگوں کا یہ آئئنی اور قانونی حق بنتاہے کہ وہ اپنے قدرتی اور معدنی وسائل کا تحفظ کریں اور ان کو یہ استحقاق ہو کہ وہ کسی بھی شخص یا ادارے کے ساتھ اپنی شرائط پرمعاہدہ کریں۔
موسمیاتی تبدیلو ں کی وجہ سے آج پوری دینا اور اس کرہ ارض پر بسنے والے ہر زی روح جانور کی بقا خطرے میں ہے۔ اسلئے ماہرین کا خیال ہے کہ روایتی کانکنی اور سیاحت کی بجائے ماحول دوست اور متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔
فرمان بیگ ایک سیاسی اور سماجی اور ماحولیاتی کارکن ہیں۔ وہ بام جہان میں مضامین لکھتے رہتے ہیں