علی احمد جان
روئے زمین پر انسانی تاریخ کا پہلا بڑا واقعہ آگ کی دریافت اور اس کا استعمال گرداناجاتا ہے۔ علم بشریات کے علماء کا کہنا ہے کہ آگ کو کھانا پکانے یا سرد موسم کی شدت کم کرنے کے لئے دریافت نہیں کیا گیا تھا بلکہ افریقہ کے جنگلوں میں دوسرے جانوروں کو قابو میں لانے، مار بھگانے اور ڈرانے کے غرض سے اس کا اولین استعمال ہوا۔ یہ الگ بات ہے ضمنی طور پر کھانا بالخصوص دوسرے جانوروں کا گوشت پکا کر کھانے اور سردی کے توڑ کے طور پر آگ کے استعمال سے شکار کا لطف دوبالا ہوا اور خط استوا پر واقع افریقہ کی مرطوب آب و ہوا چھوڑ کر شمال اور جنوب کے ٹھنڈے اور خشک علاقوں کی طرف بڑھنے کی توفیق بھی اسی دریافت کی بدولت نصیب ہوئی۔ انسان نے اپنی اس اولین دریافت سے آج تک اپنے تحفظ، برتری، اور دشمن کی تباہی سمیت لوہا، تانبا، سونا چاندی جیسی دھاتوں کو پگلا کر مختلف اوزار و دیگر سامان تعیش بنا کر اور اسے بطور ایندھن استعمال کرکےکمال حاصل کیا ہے۔ آگ کی دریافت اور اس کے استعمال نے انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان ایک خط امتیاز اور حد فاصل قائم کر دی جو وقت گزرنے کے ساتھ وسیع ہوتی چلی گئی۔
آگ کے بعد دوسرا بڑا واقعہ زراعت کی ابتدا ہے جو مشرق وسطیٰ کی گرم سرزمین پر گندم کے اگانے سے ہوئی۔ فصلوں کو ایک جگہ اگا کر بطور خوراک استعمال کرنے سے پہلے انسان خوراک کی تلاش میں جگہ جگہ گھومتا رہتا تھا مگر اب اس نے ایک جگہ ڈیرہ ڈال کر کھیتی باڑی کرنی شروع کر دی۔ زمین کو زرخیز رکھنے کے لئے کھاد اور کھاد پیدا کرنے اور ہل جوتنے کے لئے جانوروں کی ضرورت پڑی تو ایک جگہ ٹکنے کے لئے گھر آباد ہوئے اور گھروں سے گاؤں اور شہر وجود میں آئے اور یوں جدید طرز معاشرت کا آغاز ہوا۔
فصل اگانے کے اس فن نے انسان کو بھوک مٹانے کے لئے دن رات تگ و دو کرنے اور نگر نگر گھومنے کی بجائے ایک جگہ ٹھہر جانے پر مجبور کیا۔ پانی، زرخیز زمین اور موزوں آب و ہوا جہاں نظر آئے انسان نے ڈیرہ ڈال دیا۔ زمین کے حصول کے لئے لڑائی، انتظام وانصرام کے لئے ایک نظم و ضبط اور بہتر استعمال کے لئے غور و فکر نے جدید معاشرت اور تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ اگر روئے زمین پر زراعت کی ابتدا نہ ہوئی ہوتی تو تجارت، سائنس، ٹیکنالوجی، مذہب، ریاست اور معاشرت ایسی نہ ہوتی جو آج ہے اس لئے زراعت کی ابتدا کو ہی جدید انسانی تہذیب کا نقطہ آغاز کہا جاتا ہے۔ زراعت کی وجہ سے انسان نے نہ صرف زمین پر اجارہ قائم کیا بلکہ کارآمد جانوروں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار بنا کر ان کی آزادی سلب کرکے پالتو بنا دیا اور جو جاندار و بے جان اس کے کام کے نہیں تھے ان کو ناپید کرنے کی کوشش جاری رکھی۔
زراعت کی ابتدا کے بعد پہیہ کا ایجاد ایسا واقعہ تھا جس نے انسان کی طاقت اور رفتار کو کئی گنا بڑھا دیا۔ پہیہ ہی جدید صنعت کی بنیاد ہے اور اس کے بعد صرف پہیہ ہی گھوما اور دنیا اسی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ دنیا پہیہ کی ایجاد کے بعد نہ صرف بدل گئی بلکہ اس کی رفتار بھی پہیہ کی رفتار کے ساتھ جڑ گئی۔ پہیہ جتنا تیز اور دور تک چلتا رہا اتنی ہی دنیا کی حرکت بھی تیز ہوتی گئی۔ پہیہ کی ایجاد سے انسان نے نہ صرف دوسرے جانوروں پر بر تری حاصل کی بلکہ پوری زمین پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ان کے محفوظ مساکن تک رسائی حاصل کی۔
زراعت نے انسان کو خوراک میں نہ صرف خود کفیل کر دیا بلکہ اضافی پیداوار سے تجارت، اسی تجارت سے منافع اور منافع سے صنعت کا پہیہ گھوما اور منڈی وجود میں آئی۔ جب صنعتی ترقی نے پہیہ کے ساتھ انجن لگا کر رفتار بڑھا دی تو انسان نے صرف چند دہائیوں میں وہ منازل طے کئے جو اس کے بغیر صدیوں میں بھی ممکن نہ تھا۔ سمندر کی عمیق گہرائیوں سے افق کی بلندیاں اب انسان کے دسترس میں ہیں جس کا کوئی اور جاندار متحمل نہ ہوسکا۔
دیگر جانوروں سے ہٹ کر دو ٹانگوں پر کھڑا ہونے سے اپنی ہتھیلی پر دنیا کو سمیٹنے کی صلاحیت حاصل کرنے تک انسان بہت سی جسمانی، دماغی اور نفسیاتی تبدیلیوں اور ارتقا سے گزرا ہے۔ اس دوران وہ نہ صرف اپنے ہم جنسوں سے صف آرا رہا بلکہ دوسرے جانداروں کے علاوہ قدرتی آفات اور مرئی و غیر مرئی جرثوموں سے بھی لڑتا رہا۔ زراعت نے ایک جگہ انسانوں کو یکجا کرکے ایک معاشرت تشکیل دی جہاں وہ شکار کے دور کی نسبت زیادہ قیود و حدود کا پابند ہوا۔ اپنی طرز زندگی اور معاشرت بچانے کے لئے انسان مظاہر فطرت جیسے سیلاب، زلزلے، کیڑے مکوڑے، دھوپ، بارش اور موسم کے مقابلے میں آگیا ہے اس کا یہ مسکن پر سکون ہونے کے بجائے میدان کارزار بن گیا ہے۔
روئے زمین پرارتقائی عمل کا کن فیکون بقا و فنا کی صورت جاری ہے جس میں ایک طرف زندگی کی مختلف انواع جنم لیتی ہیں تو دوسری طرف کئی اقسام واشکال ناپید بھی ہو جاتی ہیں۔ اس ارتقائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے اور اس پر اثر پذیر ہونے کے لئے جاندار و بے جان اپنی ہیت بدل دیتے ہے یا جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ اگر کسی ایسےوائرس یا بیکٹیریا نے انسانی جسم کو اپنا مسکن بنا لیا جس کی وجہ سے زندگی کی بشری شکل کے لئے خطرہ پیدا ہوجائے تو اس کے تدارک کی ترکیب کی جاتی ہے۔ اب تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایک وائرس یا بیکٹیریا کو ختم کرنے سے یہ ختم نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ کئی اور پیدا ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ارتقائی اور کیمائی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جو رک نہیں سکتا۔
ارتقائی عمل کے دوران کرہ ارض پر حیات کی بقا اور فنا کے عمل تسلسل میں پر امن بقائے باہم کا اصول ہی سب کے وجود کا ضامن ہے۔ صرف انسانی زندگی ہی اشرف و اولیٰ نہیں بلکہ دوسرے جاندار و بے جان اور نظر نہ آنے والے حشرات بھی اتنے ہی اہم اور افضل ہیں جتنی جسامت اور عقل میں برتر خلقت. کیونکہ سب کا مسکن اسی مٹی ( لیتھو سفئیر) ، پانی (ہائیڈرو سفئیر) اور ہوا (ایٹما سفئیر) میں ہے جس کو ہم مجموعی طور پر بائیو سفئیر کہتے ہیں۔
زندگی کا دارومدار اس کی انواع پر ایک زنجیر کی صورت ہے جس میں اگر ایک کڑی کٹ جائے تو سلسلہ حیات ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر اس زنجیر میں ہماری زندگی کا انحصار کسی اور مخلوق پر ہے تو کسی اور کی زندگی ہم پر بھی منحصر ہے۔ جہاں گیری سے آگے بڑھ کر تسخیر کائنات کی کوشش میں مصروف انسان کو صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسری مخلوقات کی بقا کے بارے میں اقدامات اٹھانے ہونگے ۔ پرا امن بقائے باہم میں ’ہم یا وہ‘ نہیں بلکہ ًہم سبً کا اصول ہی سب کی بقاء کی ضمانت ہے۔
اگر زمین پر دوسرے جانور ، پودے اور حشرات ختم ہو جائیں تو خوراک کی زنجیر کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا مگر انسان نہ ہوں تو شائد روئے زمین کو نہ صرف کوئی فرق پڑے بلکہ اس کی ناگوارمداخلت میں کمی کی وجہ سے مزید بہتری آ جائے گی۔ ارتقائی عمل کے دوران فطرت کے قانون انتخاب میں صرف وہ بچ پاتے ہیں جو موزوں ہوتے ہیں اور یہ موزونیت اپنے خود اور دوسرے جانداروں اور بے جان اشیاء کے لئے یکساں کارگر ہونی چاہیے۔ بہتر ہے انسان اپنی موزونیت کو ثابت کرنے لے لئے نہ صرف خود ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی پرامن بقائے باہم کے اصول کے تحت جینا سیکھ لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان حیات کے زنجیر کی وہ کڑی توڑ ڈالے جس پر اس کا اپنا وجود منحصر ہے۔ بقاء اور فنا کی جنگ میں فطرت کے قانون انتخاب کے تحت زندگی کی کئی حقیر و اولیٰ انواع مٹ جاتی ہیں اور کئی نئی شکلیں وجود میں آتی ہیں اسی کا نام ارتقاء ہے اور صرف اسی کو ہی دوام حاصل ہے ۔
علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جوسوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔