میریٹو کریسی کا دعویٰ کرنے والوں نے میرٹ کی دھجیاں اڑائی؛ اے کے سی ایس پی کی منیجر کے بعد شقم پروجیکٹ کی منیجر کو بھی فارغ کیا گیا.
بام جہان اسپیشل رپورٹ
التت قلعہ کا شمار گلگت بلتستان میں چند ایک اہم سیاحتی و تاریخی مقامات میں ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کو دوبالا کرنے اورملکی و غیر ملکی سیاحوں میں مقبول بنانے میں جن چند چیزوں نے اہم کردار ادا کیا ان میں شقم (Ciqam) پروجیکٹ نمایاں ہے. اس 700 سالہ تاریخی ورثہ کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے ‘شقم پروجکیٹ’ سے وابستہ لوگوں کی محنت ناقبل فراموش ہے۔ اس پروجیکٹ اور اس سے جڑی ہوئی منظم سرگرمیوں جن میں خا بسی ریذڈینس(Kha Basi Residence)، کیفے، کارپنٹری سنٹر، کرافٹ شاپ، لارسن میوزک سینٹر، شامل ہے، نے ہنزہ کی ثقافت کو اجاگرکرنے اور سیاحوں کو اس سے لطف اندوز ہونے کا ایک انوکھا تجربہ فراہم کیا۔ ملکی و غیر ملکی معتبر اخبارات نے اس پراجیکٹ کے اوپر کئی فیچر اور مضامین شائع کئے. جس کی وجہ سے التت فورٹ دنیا بھر میں مشہور ہوگیا.
شقم آغا خان کلچرل سروس پاکستان (AKCSP) کا ایک پروجیکٹ ہے جو ناروے کے سفارت خانہ کی مالی مدد سے 2008 میں شروع کیا گیا۔AKCSP جو کہ آغا خان ڈولپمینٹ نیٹ ورک (AKDN) کا ایک ذیلی ادارہ ہے، اس پروجیکٹ کی نگرانی کرتا رہا۔ یہ پروجیکٹ اس معاہدے کے تحت شروع کیا گیا تھا کہ اس سے غریب خواتین کو روزگار اور ہنر سکھائیں جائیں گے تاکہ وہ معاشی طور پر خودمختار بنیں اور اپنے پاؤں پہ خود کھڑی ہوں.
اس ادارے نے نہ صرف مالی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کیا اور اپنا اثاثہ بنایا بلکہ پورے گلگت بلتستان میں خواتین کے لئے ایک مثال قائم کیا کہ وہ خود مردوں کے بغیرآزادانہ طور پر ادارے کامیابی کے ساتھ چلا سکتے ہیں.
جن خواتین نے اپنی محنت اور صلاحیتوں سے اس ادارہ کو کمیابی سے ہمکنار کیا ان میں عقیلہ بانو سب سے نمایاں ہیں. جنہوں نے قائدانہ کردار ادا کرکے دوسروں کے لئے بھی مثال قائم کیا اور اس ادارہ کو کامیابی سے چلایا.عقیلہ نے بحیثیت ٹرینی 2003 میں AKCSP میں ملازمت شروع کیں۔ انھوں نے دن رات محنت اور ایمانداری سے بے شمار مشکلات اور سماجی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شقم کے منیجر کے اہم عہدے تک ترقی کی. وہ 2009 سے التت فورٹ کے منیجر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ تب سے اب تک وہ Kha Basi Cafe, Leif Larson Music Centre, Craft Shop, Carpentry Center اور Altit Fort کے تمام کام دیکھتی رہی۔ وہ بغیر چھٹی کئے بارہ مہنے دن رات بغیر اضافی تنخواء کے کام کرتی رہیں سوائے شقم کی منیجر کی تنخواء کے کوئی اورمعاوضہ یا فائدہ حاصیل نہیں کیا۔
انھوں نے اپنی محنت اور کمٹمینٹ کی وجہ سے دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کیلئے شقم کو ایک مثالی ادارہ کے طور پر پیش کیا۔ بہت سارے حکومتی اور نجی اداروں کے اعلی حکام نے ان کی خدمات کو سراہا.
لیکن یہ بات آغا خان کلچرل سروس کےاعلی حکام کو پسند نہیں آیا. انھوں نے سب سے پہلے اس ادارے کے معماروں کو تنگ کرنا شروع کیا اور پچھلے سال AKCSP کے منیجر صفی اللہ بیگ کو غیر قانونی طریقے سے فارغ کیا گیا. اس کے بعد حال ہی میں شقم کے منیجر عقیلہ بانو کو ان کی سترہ سالہ خدمات کو نظر انداز کر کے انہیں ناقابل بیان حد تک ذہنی اذیت پہنچانے اور حراساں کرنے کے بعدکوئی وجہ اورنوٹس دئیے بغیر فارغ کیا گیا. یہاں تک کہ انہیں گیٹ کے اندر داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں۔
اے کے سی ایس پی سا وابستہ ایک زمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بام جہان کو بتایا کہ "آغا خان ڈویلپمینٹ نیٹورک کے اداروں کا دعوٰی ہے کہ وہ میریٹوکریسی پر یقین رکھتے ہیں اور اس بنیاد پر ملازمتیں دی جاتی ہیں. لیکن حقیقت میں اس کا الٹ کام ہو تا ہے. جس کی مثال خود AKCSP کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں، جو پچھلے 27 سالوں سے اسی ادارے کے CEO ہیں۔ ان کی عمر 70 برس ہونے کے باوجود وہ اس عہدے پر براجماں ہیں جب کہ قانوں کے مطابق ریٹائرمینٹ کی عمر 62 سال ہے۔ موصوف کی نہ تو کلچر کے کسی شعبے میں مہارت ہے اور نہ معلومات ہے. جبکہ یہ لاکھوں میں تنخواہ اور بہت سارے مراعات بھی لیتے ہیں۔ مگر کوئی اس پہ سوال نہیں کر سکتا۔اگر کوئی بولنے کی کوشش کرے بھی تو اس کو نوکری سے نکال دیاجاتا ہے۔”
عقیلہ کا کہنا ہے کہ، "میرے لئے یہ پریشانی اور صدمہ کا باعث ہے لیکن یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے۔ایسی کئی خواتین ہں جو اسی طرح کے مسائلسے دوچار ییں .مگر اپنی مجبوریوں کی وجہ سے بول نہیں سکتی۔ اس لیے ان کا استحصال ہو رہا ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری تنظیمیں، خاص طور پر AKDN پر بالائی طبقہ کے افراد کا قبضہ ہے اور ان اداروں کا ترقیاتی ماڈل اور حدف صرف چند اشرافیہ طبقہ ہے۔ان اداروں میں انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کی پالیسیاں، ملازمتیں، تنخواہیں اور مراعات کا تعین لوگوں کے سماجی مرتبہ اور طبقاتی بنیادوں پر ہوتا ہے.
ان کا یہ بھی کہنا ہےکہ AKDN کے اداروں کےسربراہان کی ماہانہ تنخواہیں دس لاکھ سے اوپر ہوتا ہے جبکہ نیچلی سطح کے ملازمین چاہے وہ نرس ہوں، ٹیچر یا کوئی اور ملازم ان کی تنخواہیں زیادہ سے زیادہ 10 یا 15 ہزار تک ہوتی ہے. جس میں آج کے دور میں زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے. ہر ادارے میں کچھ لوگ ایسے قابض ہیں جیسے AKDN ان کی ذاتی ملکیت ہو۔ اس لیے چھوٹے یا درمیانہ درجے کے ملازمین اپنے حق کی بات بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اور اگر کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کو ذہنی طور پہ اتنی اذیت دی جاتی ہے کہ وہ مجبور ہو کر یا تو خود نوکری چھوڑ دے یا انہیں کسی نہ کسی بہانے نکال دیا جاتاہے۔
انھوں نے کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پہ آواز اٹھائیں۔ میں نہیں جانتی میرے ساتھ کیا سلوک کیا جاہے گا لیکن میں ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کروں گی۔
عقیلہ کا کہنا ہے کہ "اپنا تجربہ بیان کرنے کا واحد مقصد غریب خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنا اور ان کے حقوق کو ملکی اور بین القوامی قوانین کے تحت تحفظ ہو.”
Covid-19 جو ایک عالمی وبا ہے جس سے ہر کوئی متاثر ضرور ہے، مگر غریب سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں AKCSP غریب ورکرز کے ساتھ اس قدر زیادتی کر رہا ہے کہ التت فورٹ کے اسٹاف جو کہ کئی سالوں سے محنت کر کے ادارے کو کروڈوں روپے کما کے دے رہے ہیں اس مشکل وقت میں ان کی تنخواہیں آدھی کر دی گئی ہے۔
عقیلہ کا کہنا ہے کہ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان کو ہٹانے کے بعد Altit ٖFort کو سیرینا ہوٹل کے حوالے کیا گیا ہے۔ AKCSP جو کمونیٹی کی ملکیت داری کی بنیاد پر ترقی کا دعوای کرتی تھی آج اس کے برعکس کام کر رہی ہے ۔ اسی لیے ان تمام لوگوں کو ایک ایک کر کے فارغ کیا جارہا ہے جو غریب عوام کے مفادات کا دفاع کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
عقیلہ کا کہنا ہے کہ آج گلگت بلتستان، خاص طور پر ہنزہ کے لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ آیا وہ التت فورٹ جیسے قومی اثاثہ اوراس کے ملازمین کے لۓ ذریعئہ معاش کو سرینا ہوٹلز کے انتظامیہ کے حوالے کرنے دیں گے یا یہاں کام کرنے والے بہنوں اور بھائیوں کا ساتھ دینگے؟ کیا ہنزہ کے عوام اپنے تاریخی اثاثہ (ہیریٹیج) کو ایک کارپوریٹ ادارہ کے قبضے میں جانے دینگے؟