Baam-e-Jahan

پروفیسر حشمت کمال الہامی : گلگت بلتستان کے ادب کا درخشاں ستارہ ڈوب گیا

ایک مرتبہ ایک رسالہ میری نظر سے گزری جس میں ایک صاحب کی تصویر اور چند اشعار شائع ہوئے تھے. ان اشعار نے مجھے بے حد متاثر کیا اور میں ان کو اپنی کاپی میں لکھنے لگا. اتنے میں والد صاحب نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا "یہ پروفیسر حشمت کمال الہامی صاحب ہیں اور یہ میرے اچھے دوست ہیں.” اس کے ساتھ انہوں نے اپنی یادوں کے دریچے وا کئے اور ان کے ساتھ گزارے خوبصورت لمحات کا ذکر کیا.

"ہم دونوں ایک مدرسے میں ایک سال تک ساتھ رھے. حشمت اس زمانے میں بھی اسی طرح اشعار لکھا کرتے تھے. وہ نہایت سادہ، فراخ دل اور شریف النفس اور نفیس انسان ہیں. ہم دونوں فارغ اوقات میں مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے تھے. پروفیسر صاحب کو کبھی میں نے کسی کے خلاف سازش کا حصہ بنتے نہیں دیکھا، بس وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے ، اور بڑا اچھا بولتے اور لکھتے ہیں، مگر ان میں کبھی غرور اور تکبر کا عنصر نہیں دیکھا، یہی وجہ ہے آج بھی میں ان کو اپنا بہترین دوست سمجھتا ہوں اور اسکردو جب بھی جاتا ہوں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں”.

اس دن سے میرے دل میں پروفیسر صاحب کیلئے عزت کا ایک جزبہ پیداہوا،حالانکہ میں نےان کو دیکھا تک نہیں تھا، خیر وقت گزرتا گیا، ایک دن ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں مجھے کسی مشاعرہ میں جانے کا اتفاق ہوا ، جس کی میزبانی معروف شاعر ذیشان مہدی صاحب اور صحافی محمد علی انجم کر رہے تھے، اتنے میں سٹیج سے اعلان ہوا ..”ہمارے درمیان پروفیسر حشمت کمال الہامی صاحب بھی تشریف فرما ہیں”. میری تجسس اب بے چینی میں تبدیل ہوگیا ،میں انتظار کرنے لگا، پروفیسر صاحب کی باری کب آئے گی اور میں ان کو سن سکوں، یوں مشاعرہ چلتا رہا اور اس دوران اس وقت کے وزیر اعلی سید مہدی شاہ بھی مشاعرے میں بڑے دھوم دھام سے داخل ہوئے. اتنے میں پروفیسر صاحب کی باری آ گئی، یوں محفل میں خاموشی طاری ہوگئی، وہ ایک مخصوص انداز میں مائیک پر آ ئے، مسکراہٹوں کو بکھیرتے ہوئے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنی نشست سنبھالی لی، اور اشعار کہنے لگے پوری محفل اس وقت جھوم اٹھی جب انہوں نے یہ شعر پڑھا:

شاعری چارہ سمجھ کر ہر گدھا چرنے لگا

اور اس کے ساتھ حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں بھی کچھ اشعار کہے جن کا خلاصہ کچھ یوں تھا، چوری بھی اور اوپر سے سینہ زوری بھی، آخر میں سید مہدی شاہ نے ان اشعار پر معترض ہوئے اور کہا "جناب ہم نے کچھ اچھے کام بھی کیئے ہیں اشعار کے ذریعے ان کی بھی تعریف ہونا چاہیے”. یوں یہ مشاعرہ ختم ہوگیا. پروفیسر حشمت صاحب بھی دیگر شعراء اور اہم شخصیات کے ساتھ چلے گئے.

اس کے بعد میں نے ڈگری کالج سکردو میں داخلہ لیا. ایک دن سوشیالوجی کے پروفیسر طاہر ربانی صاحب تشریف نہیں لائے تھے تو ہمیں کالج انتظامیہ نے بتایا کہ ان کی جگہ پروفیسر حشمت کمال صاحب ہمیں پڑھائیں گے. میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے سنا کہ حشمت صاحب ہمیں پڑھائیں گے. اور اس بہانے ان کو بہت قریب سےسننے اور دیکھنے کا موقع ملے گا. میں یہی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں وہ کلاس روم کے دروازے پر نمودار ہوئے اور ہاتھ لہراتے کہرے پر مسکراہٹ لئے وہ کلاس روم میں داخل ہوئے. پوری کلاس استاد کے احترام میں کھڑے ہوگئے. وہ اسٹیج پر کھڑے ہوگئے. سادگی اور عاجزی کایہ عالم تھا کہ اتنی شہرت حاصیل کرنے کے باوجود انہوں نے اپنا تعارف کیا اور ایک شعر سے تدریس کا آغاز کردیا. لیکچرشروع ہوتے ہی پوری کلاس ان کے سحر میں کھو گئے. ان کے ہر جملے میں ایک نئی سوچ، نئی فکر، تاریخ اور فلسفہ کے نئے زاوئے اور نئی امید کی کرن نظر آرہی تھی. وہ پورے 40 منٹ کھڑے رہے اور روانی سے بولتے گئے.

وہ علم کے سمندر تھے، وہ دریا کو کوزے میں بند کرتے تھے جس کا اندازہ آپ اس شعر سے لگا سکتے ہیں، پورے گلگت بلتستان کی تعریف دو جملوں میں انہوں نے بیان کی ہے.

پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیچ میں
مثالِ گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں

گلگت بلتستان کے طالب علم جب اپنے خطے سے باہر یونیورسٹیوں، کالجوں اور مدرسوں میں پڑھنے جاتے ہیں تو اپنے خطے کی تعریف اور تقریر شروع کرنے سے پہلے یہ شعر ضرور پڑھتے ہیں. جس کے بعد ہال میں موجود لوگوں کو پتہ چلتا ہے، یہ گلگت بلتستان کا باسی ہے.

پچھلے دنوں ان کی اچانک اس دار فانی سے کوچ کرنے کی خبر میرے لئے سانحہ سے کم نہیں تھا. یقین نہیں آ رہا ہے کہ وہ ہنستا مسکراتا چہرہ اب دیکھنے کو نہیں ملے گا، وہ آواز اب مشاعروں میں سننے کو نہیں ملے گی، گلگت بلتستان کے مشاعروں میں لوگ اب اس آواز کو سننے کے لئے ترستے رہ جائیں گے.

ان کے جانے سے ان کی اولاد صرف یتیم نہیں ہوئی بلکہ میں سمجھتا ہوں گلگت بلتستان کا ادب یتیم ہو چکا ہے . لیکن کون کہتا ہے حشمت کمال مرحوم ہو چکے ہیں ایسا ہرگز نہیں. وہ اپنے اشعار کے زریعے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے. ان کی کتابیں گلگت بلتستان کے کونے کونے کی لائبریریوں میں علم کے مراکز میں بھری پڑی ہیں.

ان کے تمام شاگردوں اور اہل ادب و فن کو چاہیے ، کہ وہ حشمت کمال کے ادبی خدمات اور کام کو زندہ رکھیں اور اسے فروغ دیں. ان کا ویژن معاشرے میں محبتوں کو عام کرنا تھا، وہ انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواب دیکھتا تھا,ان کے اس خواب کی تکمیل کے لئے اور ایک سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لئے نوجوانوں کو جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے. ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے نوجوان گوہرِ نایاب ہیں ان کو ڈھونڈیں اور ان کو گوہر نایاب بنانے میں کردار ادا کریں.

  • علی اقبال سالک ہائی ایشیاء میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں اور ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہان کے اسکردو میں نمائندہ ہیں.

  • جواب دیں

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے