انہیں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے اوکاڑہ میں جلوس نکالنے پر دس سال قید کی سزا سنائی تھی؛ 8 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مہر ستار اور ان کے ساتھئ عبدل الغفور کو تمام الزامات سے بری اور ان کی رہائی کا حکم دیا.
بام جہان رپورٹ
انجمن مزارعین پنجاب کے رہنماء مہر عبدالستار کو لاہور ہائی کورٹ نے تمام الزامات سے بری کیا اور ان کو رہا کرنے کا حکم دیا.
ان پر اوکاڑہ میں جلوس نکالنے کا الزام تھا جس میں انسداد دھشت گردی عدالت نہ انہیں دس سال کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رہنماء فاروق طارق نے ٹویٹر کے ذریعے خبر دیتے ہوئے کہا کہ طویل ترین قید بھگتنے والے کسان رہنماء مہر عبدالستار جنہوں نے اوکاڑہ ملٹری فارم کے مزارعین کے حقوق کی تاریخی جدوجہد کی رہنمائی کیں، کو لاہور ہائی کورٹ نے تمام الزامات سے بری کیااور ان کی رہائی کا حکم دیا.
مہر عبدالستار کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی ڈویژنل بینچ نے منگل کے روز آخری مقدمے میں بھی باعزت بری کر دیا۔
مہر عبدالستار جنرل سیکرٹری انجمن مزارعین پنجاب کے وکیل زاہد بخاری مرحوم نے اپنی وفات سے قبل اس مقدمے میں دلائل دے چکے تھے۔
مہر عبدالستار کے ساتھ قیدی عبدالغفور کو بھی بری کر دیا گیا۔
ان کی بریت اور رہائی کے حکم کا بایاں بازو اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کیا کہ دیگر اسیر رہنماوں بشمول بابا جان اور ان کے 12 ساتھیوں کو بھی رہا کیا جائیگا.
نامور صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے ٹویٹر اکاوءنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قیمتی سال جو جیل میں گزارے کا ازالہ کون کرے گا؟
دفاعی امور کے ماہر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بھی اس فیصلے کو سراہا.
عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور دانشور عاصم سجاد اختر نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے جب 2001 میں اوکاڑہ ملٹری فارم کے مزارعین کے ساتھ کام شروع کیا تھا تو مہر عباالستار اس وقت 19 سال کے یونیورسٹی کے طالنعلم تھے، آج وہ نوجوانوں کے ہیرو بن کر ابھرے ہیں جو آزادی کے بارے میں جاننے لگے ہیں.
ان کی رہائی ایک چھوٹی سی فتح ہے اور جدوجہد کو جاری رہنا چائیے.”
عوامی ورکرز پارٹی پینجاب کے صدر عمار رشد نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی پارٹی "مہر عبدالستار ، اے ایم پی اور اوکاڑہ کسان تحریک کو لال سلام اور مبارکباد پیش کرتی ہے جنہوں نے کسانوں کے حق ملکیت کیلئے تاریخی جدوجہد کی مثال قائم کی ہے”۔
مہر عبدالستار اور ان کے ساتھیوں پر 2002 سے 2016 تک 37 سے زائد دہشت گردی اور دیگر جھوٹے الزامات پر مقدمے درج کیے گئے۔ ان مقدمات کا مقصد صرف اور صرف اے ایم پی کی قیادت کو مجرم قرار دے کر اور جیل میں ڈال کر کسانوں کی تحریک اور ان کے حق ملکیت کے مطالبات کو خاموش کرنا تھا۔
متعدد مقدمات میں ضمانت حاصل کر نے کے باوجود، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں 2016ء سے کسی نہ کسی مقدمے کی آڑ میں انہیں ساہوال کے بدنام زمانہ ہائی سیکیورٹی جیل اور قید تنہائی میں رکھا گی اور ان پر تشدد کیا گیا، لیکن اس کے باوجود مہر ستار نے کبھی ہمت نہیں ہاری، کبھی گھٹنے نہیں ٹیک دئے اور اپنے اصولی موقف پر کھڑے رہے۔
عمار نے کہا کہ "مہر ستار کی رہائی پنجاب اور پورے پاکستان میں عوامی تحریکوں کی فتح ہے۔ تمام تر مشکلات اور ریاستی جبر کے باوجود اوکاڑہ کی تحریک نے کسانوں کے حق ملکیت کے حصول کے لئے اصولی جدوجہد جاری رکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اکیسویں صدی کے پنجاب میں عوامی، کسان اور مزدور تحریکوں کی کامیابی ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔”
انہوں نے کہا کہ "عوامی ورکرز پارٹی پنجاب انجمن مزارعین پنجاب کے ساتھیوں کو سلام پیش کرتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ اوکاڑہ کسان تحریک کی پرزور حمایت کرتی رہے گی اور ملک بھر میں مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد کو منظم کرنے اور جوڑنے کی کوششیں جاری رکھے گی۔
اے ڈبلہو پی پینجاب کے صدر نے کہا کہ، "حقیقی معاشی اور سماجی تبدیلی صرف اور صرف محنت کش عوام کی مشترکہ جدو جہد سے ہی ممکن ہے، جس کی عملی مثال مہر ستار نے قائم کی ہے۔”
عمار نے کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی پنجاب ملک کے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ بھی کرتی ہے ، جن میں اے ڈبلیو پی گلگت بلتستان کے بابا جان اور ان کے 12 ساتھی بھی شامل ہیں، جو آٹھ سال سے اپنی اصولی جدوجہد کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں.
مشہور سماجی کارکن اور حقوق انسانی کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ کی ایسے بہادر انسان قومی ہیرو اور اثاثہ ہیں، مین اسٹریم میڈیا کو چاہئے کہ ان کے قربانیوں کا جشن منائیں.
کیس کا پس منظر
مہر عبدالستار کو 16 اپریل 2016ء کو انکے گھر سےگرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس سے ایک روز بعد کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے گاؤں چک 4/4L اوکاڑہ ملٹری فارمز پر ایک بڑا جلسہ منظم کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ تب سے وہ جیل میں ہیں.
فاروق طارق نے مزدور جدوجہد میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آج سے ٹھیک تین سال قبل 16 ستمبر کو سپریم کورٹ کے حکم پر انہوں نے انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر اور عابد ساقی ایڈووکیٹ کے ہمراہ ساہیوال ہائی سکیورٹی جیل میں مہر ستار سے ملاقات کی اور ان پر روا رکھے گئے غیر انسانی سلوک کے بارے میں معلومات لیں۔ اس ملاقات نے اس مزارع راہنما کی زندگی کچھ آسان کر دی۔ واپسی پر مزارعین کے گاؤں میں گئے۔ جہاں سینکڑوں مزارع عورتوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ اس موقع پر عاصمہ کے ایک سوال کے جواب میں تقریباً ایک سو عورتوں نے ہاتھ کھڑا کر کے کہا کہ ان کے خلاف مقدمات ہوئے اور انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔
مہر عبدالستار کے خلاف2001ء سے لیکر 2016ء تک 36 مقدمات درج کئے گئے۔ چند میں وہ بری ہو چکے تھے. اس سے قبل دو کے سوا تمام مقدمات میں ان کی ضمانت منظور کی جا چکی تھی اور ایک مقدمہ میں انہیں ساہیوال انسداد دہشت گردی عدالت نے دس سال کی سزا سنائی تھی۔ چار سالوں کے دوران ان کے وکلا میں سینئر ایڈوکیٹس عاصمہ جہانگیر، مرحوم زاہد بخاری، اعظم نذیر تارڑ، عابد ساقی، فاروق احمد باجوہ اور آذر لطیف خان شامل تھے۔
مزارعین کی تحریک کو کچلنے کے لئے مزارعین کے رہنماوں کے خلاف اکثر مقدمات انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت کاٹے گئے۔ اوکاڑہ میں پنجاب پولیس کی جانب سے جتنے جھوٹے مقدمات مزارعوں کے خلاف درج کئے گئے شائد ہی کسی اور تحریک کے راہنماء کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت اتنے مقدمات درج کئے گئے ہوں. اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اوکاڑہ ملٹری فارمز مزارعین کی حق ملکیت کی جدوجہد سے ہمارا رابطہ 2001ء میں ہوا۔ اسی وقت عاصمہ جہانگیر کو تفصیل سے اس جدوجہد بارے بتایا گیا تو انہوں نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ وہ جب بھی اوکاڑہ ملٹری فارمز گئیں تو ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ان کو بتایا گیا کہ ملٹری فارمز انتظامیہ مزارع کا سٹیٹس تبدیل کر کے انہیں ٹھیکہ دار بنانا چاہتی ہے تا کہ بعد ازاں انہیں بے دخل کیا جا سکے۔
مزارعین نے ‘مالکی یا موت’ کی تحریک کا آغاز کیا اور ملٹری فارمز انتظامیہ نے انکے دیہاتوں کا گھیراؤ کیا، یہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ اس کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہ تھی۔ شائد یہ جنرل مشرف کے خلاف پہلی بڑی عوامی تحریک تھی جس کا آغاز پنجاب سے ہوا تھا۔ مزارعوں نے اس تحریک کاآغاز کیا تو مزارع عورتیں پیش پیش تھیں۔ انہوں نے ایک ”تھاپا“ فورس بنائی ہوئی تھی جو ہاتھوں میں کپڑے دھونے والے تھاپے اٹھا کر پولیس کی دو تین دفعہ خوب دھلائی کر چکی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر ان کسان عورتوں کی جدوجہد سے بہت متاثر تھیں۔
عاصمہ کی جیل کا دورہ کا سن کے مہر ستار کا کمرہ بھی تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ ”اچھا“ سلوک بھی ہونے لگا۔ بیڑیاں تو سپریم کورٹ نے اتار دیں۔ ملاقات کی اجازت بھی دے دی گئی تھی
اوکاڑہ مزارعین کے خلاف مقدمات پاکستان میں ریاستی شہ زوری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ملٹری فارمز کے افسران کا موقوف تھا کہ مسئلہ کوئی اور ہے، اس پر بات نہیں ہو گی۔ مزارعین کو دھمکیاں دی گئی اور کہا گیا کہ ان کے قیادت کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان کو جھکا لیا جائے گا وہ معافی مانگ لیں۔ پنجاب میں جو 68،000 ایکڑ زمین فوجی اور دیگر اداروں کے پاس ہے وہاں چپ چاپ کام کریں، تو کوئی مقدمہ نہیں ہو گا۔ آپ ”ملک دشمن“ نہیں قرار پائیں گے، آپ کو ”را“ کا ایجنٹ قرار نہیں دیا جائے گا۔ 6 ماہ تک بیڑیوں میں جکڑا نہیں جائے گا۔
اس تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب جنرل مشرف کے دور میں 2001ء کے دوران مزارعین کو ٹھیکیداری نظام پر لانے کی تجویز دی گئی تو مزارعین نے اس کے خلاف مالکی لینے کی تحریک شروع کر دی۔ تمام تر ریاستی تشدد اور جبر کے باوجود یہ تحریک آج بھی خاموشی سے جاری ہے۔ اس کا آغاز مزارعین کی جانب سے وہ حصہ جو وہ ہر سال بٹائی کے نام پر ملٹری فارمز انتظامیہ کو دیتے تھے کو دینے سے انکار سے ہوا۔ آج انیس سال بعد مزارعین نے اس سال بھی گندم اٹھائی اور حصہ نہ دینے کو احتجاج کا حصہ بنا یا۔ یہ مزارعین انیس دیہاتوں میں آباد ہیں۔
مہر عبدالستار کے خلاف ایک مقدمے میں الزام لگایا گیا کہ اس نے بھتہ خوری کی ہے۔ جس کی طرف سے الزام لگایا گیا اس مدعی نے عدالت میں بیان دے دیا کہ مجھ سے کبھی مہر ستار نے کوئی زبردستی نہیں کی۔ نہ ہی بھتہ خوری کی۔ کئی مقدمات میں ان کے خلاف ایک ہی مدعی ہے۔
جس مقدمے میں وہ اب بری ہوئے اس میں ایک پولیس کانسٹیبل نے یہ گواہی دی کہ مہر ستار نے مظاہرے کے دوران اس پر گولی چلائی اور وہ زخمی ہو گیا۔ یہ پولیس کانسٹیبل کسی پولیس مقابلہ میں معمولی زخمی ہوا تھا۔ بس اسی کا میڈیکل سرٹیفکیٹ کئی اورمقدمات میں بھی پیش ہوا تھا۔ آج لاہور ہائی کورٹ کے جج نے پوچھا کہ مہر ستار نے جب سات فٹ کے فاصلے سے گولی چلائی تو کیا گولی آر پار نہ ہوئی۔ اس پر سرکاری وکیل کی آئیں بائیں شائیں اور پھر سزا کے خلاف اپیل منظور کر لی گئی۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے چک پندرہ اوکاڑہ ملٹری فارمز پر فائرنگ سے دو مزارعے ہلاک ہوئے تھے اور مقدمہ مہر عبدالستار سمیت پندرہ مزارع راہنماؤں پر درج کر لیا گیا۔ ان میں ایک مزارعہ اس واقعہ سے قبل ہی فوت ہو چکا تھا۔
16 اپریل 2016ء کو ان کی گرفتاری کے ہفتوں بعد رات دو بجے ان کے گھر پر پولیس کے درجنوں افرادفائرنگ کرتے داخل ہوئے۔ گھر والوں کو زبردست ہراساں کیا، جب گاؤں والے پہنچے تو پھر وہ وہاں سے گئے اور عدالتوں کو یہ بتایا کہ ان کے گھر سے اسلحہ، ہینڈ گرنیڈ، دھماکہ خیز مواد اور 80,000 سے زائد بھارتی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ ایسی بے شمار جھوٹی کہانیاں گھڑ کر انہیں دہشت گرد قرار دینے کی پوری کوششیں کی گئیں۔ انہیں بار بار را کا ایجنٹ کہا جاتا رہا۔
مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال کے رو برو ان کو بیڑیاں پہنانے کے خلاف رٹ کی سماعت کے دوران استدعا کی تھی کہ انہیں بذات خود جیل جانے کی اجازت دی جائے اور بیڑیاں اتاری جائیں، ان کو ہائی سکیورٹی جیل سے عام جیل میں منتقل کیا جائے۔ پہلی دو گزارشات مان لی گئیں اور جیل شفٹ کرنے بارے فیصلہ مزید سماعت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔
عاصمہ کی وفات کے بعد سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہمارے وکیل عابد ساقی کی ایک نہ مانی اور ہماری انسانی حقوق کی اپیل خارج کر دی۔ مجھے کئی دفعہ مہر ستار کے کیسوں میں انسداد دہشت گردی عدالت، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت سننے کا موقع ملا۔ یہ بالکل واضح تھا کہ یہ جھوٹے مقدمات ہیں جو صرف انجمن مزارعین کے زمینی حقوق کی جدوجہد کو دبانے کے لئے قائم کئے گئے تھے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے صدر فانوس گجر نے بھی تین سال قبل ساہوال جیل اور اوکاڑہ کا دورہ کیا تھا. کسان عورتوں اور لوگوں نے انک کا بھی شاندار اسققبال کیا تھا.
مہر عبدالستار بلا شک و شبہ اس وقت پنجاب کے وہ سیاسی قیدی تھے جن کی رہائی کا مطالبہ دنیا بھر کے علاوہ پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھر پور انداز میں کیا۔ پاکستان کے آئینی ادارہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ان کی گرفتاری کے بعد اوکاڑہ کا دورہ کیا اور اس کے بعد جو رپورٹ جاری کی وہ واضح طور پر ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو رد کرتی ہے اور اس نے تجویز کیا تھا کہ تمام مزارعین رہنماؤں کورہا کر کے ان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو حل کیا جائے۔
مہر عبدالستار کی باعزت رہائی نے پولیس اور ریاستی اداروں کی ان کوششوں کو ناکام بنا دیا جو وہ اس تحریک کو دبانے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ ہمارا آج بھی مطالبہ ہے کہ تمام سرکاری زرعی فارموں کی زمینوں کو وہاں کاشت کرنے والے مزارعین کے نام کیا جائے۔
جھوٹے مقدمات سے مزارعین کو زمینوں کی ملکیت کے مطالبہ سے دستبردار نہیں کرایا جا سکتا۔ مزارعوں کو بے دخل کرنا ممکن نہیں، زمینیں وہ خالی نہیں کریں گے یہ ان کا قانونی حق ہے۔ مزارعیت کے قوانین کے تحت مزارعوں سے زمین خالی نہیں کرائی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے جھوٹے مقدمات واپس لے۔ مزارعوں کو باعزت بری کرے اور ان سے مذاکرات کرے اور نو آبادیاتی دور کی اس نشانی سے جلد از جلد جان چھڑائے اور زمینیں مزارعوں کے نام کرے.