چترال کے مسائل کو اجاگر کرنے میں صحافیوں کا کردار
کریم اللہ
ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط چترال دو اضلاع یعنی اپر چترال او رلوئر چترال پر مشتمل ہے ۔ 1969ء تک یہ خطہ آزاد ریاست کے طور پر موجود تھی تاہم 1969ء میں اس کی ریاستی حیثیت کو ختم کرکے اسے باضابطہ طو رپر پاکستان میں ضم کردیا گیا۔ اس انضمام سے اہالیان چترال کو امید تھی کہ ان کے سینکڑوں برسوں پر محیط پسماندگی ا ور غربت و جہالت کا خاتمہ ہوگا مگر ہندوکش اور ہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع اس دور افتادہ پہاڑی خطے کی جانب کسی بھی حکومت نے خاص توجہ نہیں دی جس کے باعث یہ خطہ اب بھی مسائل کی اماجگاہ اور غربت افلاس کا شکار ہے ۔دور حاضر میں جہاں میڈیا کی وجہ سے بہت سارے مسائل حکام بالا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو چترال سے تعلق رکھنے والے چند ایک نوجوان صحافیوں نے قومی و بین الاقوامی میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے چترال کے مسائل کو اجاگر کرتے رہے جس کے باعث چترال بھی اب مختلف حوالوں سے میڈیا اور ایوانوں میں زیر بحث رہتی ہے۔ چترال کے مسائل کو اجاگر کرنے میں جن نوجوان صحافیوں نے کردار ادا کیا ان کا تذکرہ ضروری ہے ۔
بے نظیر صمد: لٹکوہ کریم آباد سے تعلق رکھنے والی بے نظیر صمد قومی و بین الاقومی لیول کے براڈ کاسٹ اداروں میں بطور رائیٹر ، ایڈیٹر وغیرہ کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں ۔ آپ چترال جیسے دور افتادہ علاقے سے تعلق رکھنے والی واحد خاتون صحافی ہے ۔ آپ اے آر وائی ڈیجیٹل میڈیا کے ایڈیٹر اور بعد میں فیلوشپ پر امریکہ کے معروف تعلیمی ادارہ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اورگزشتہ کم و بیش ایک سال سے وائس آف آمریکہ کے ساتھ کام کررہی ہے ۔ بے نظیر صمد نے نہ صرف اپنی رائیٹنگ سے چترال بالخصوص یہاں کے خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جس کے باعث مختلف اداروں نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسائل کو لاکھوں لوگوں تک پہنچا رہی ہے ۔ لٹکوہ کے وادی آرکاری میں افیون کا استعمال بہت زیادہ ہے بے نظیر نے اس علاقے میں جاکر آفیون کے استعمال اور اس کے خواتین کی صحت و سماجی زندگی پر اثرات کے حوالے سے ایک جامع اسٹوری پبلش کی جس کے بعد مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے آرکاری ویلی کی جانب توجہ دی ، منشیات کی لت میں ملوث افراد کا علاج کیا گیا اور بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی گئی ۔
چونکہ پاکستان میں میڈیا شہری علاقوں تک محدود ہے اور دور دراز کے دیہاتی علاقوں کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تاہم سوشل میڈیا نے اس گیپ کو کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے اور بے نظیر جیسے لوگ اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی مدد سے اپنے علاقوں کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے حکام کی توجہ اسی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
فیاض احمد: فیاض احمد کا تعلق اپر چترال تورکھو سے ہیں شعبہ صحافت میں ماسٹر کرنے کےبعد وہ باضابطہ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ منسلک ہوگئے پہلےاے آر وائی اور پھر سماء کے ساتھ سنئیر رپورٹر کام کیا ہے ۔ چترال کے مسائل ، یہاں کے وسائل اور طرز بود باش کے حوالے سے ان کے خصوصی پیکیچ قومی لیول میں توجہ کا مرکز رہی ہے ۔
محمد شریف شکیب: محمد شریف شکیب کا تعلق اپر چترال کے دورافتادہ علاقہ لون سے ہیں آپ عرصہ پچیس تیس سالوں سے صحافت کے شعبے سے وابسطہ ہے جیو نیوز پشاور میں بطور کاپی ایڈیٹر کام کرچکے ہیں جبکہ روزنامہ مشرق اور روزنامہ آج میں ریگولر بنیادوں پر کالم اور فیچر لکھتے ہیں ان کی خصوصی توجہ چترال کے مسائل ، یہاں کی طرز بود و باش او رادب و ثقافت ہے ۔ چترال کے مسائل کو صوبائی لیول پر اجاگر کرانے میں آپ گرانقدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی نام ایسے ہیں جو میڈیا کے ذریعے چترال کے مسائل کو اجاگر کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے جدید ٹیکنالوجیکل دور میں جس خطے کی میڈیا کے اندر مضبوط نمائندگی ہو انہی خطوں کے مسائل جلدی حل ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ چترال کے مزید نوجوانوں کو صحافت کی جانب راغب کیا جاسکے تاکہ ہمارے مسائل ملکی و بین الاقوامی لیول میں اجاگر ہوسکیں۔