تحریر. اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گذشتہ ہفتے عمران خان کی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی بابت میڈیا رپورٹس سامنے آنے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے بہت سارے سیاسی اور غیر سیاسی لوگ اپنی اپنی من پسند تشریحات کررہے ہیں.
سیاسی بحث میں الجھے ہوۓ بہت سارے لوگ اس اہم مسئلے کے ساتھ جڑے ہوۓ بین الاقوامی قانونی مشکلات سے نابلد ہونے کی وجہ سے نہ صرف خوشی سے ناچ رہے ہیں بلکہ ایک مکتبہ فکر کا دعوٰی ہے کہ اب گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن کے رہے گا اور پھر اس خطے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی؛ جبکہ دوسرے مکتبہ فکر خصوصا ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کے حامی لوگوں کا ماننا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے نہ صرف کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا بلکہ ریاست کے مفادات کو بھی نقصان ہوگا اور ساتھ میں پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر میں کیا گیا مودی سرکار کے غیر قانونی اقدام کو ایک طرح سے بین الاقوامی برادری میں قبولیت بھی ملی گی.
برحال اس تمام بحث میں حقیقت پسندی سے زیادہ ذاتی پسند و ناپسند اور خواہشات کا اثر غالب ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ایک ابہام پھیل گئی ہے اس لئے اس نئی سیاسی بحث کو قانونی تناظر میں سمجھنے کے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ آیا یہ عبوری صوبے والی کہانی کیا ہے؟
اور وہ کونسے قانونی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے گلگت بلتستان کو گزشتہ ستر سالوں سے پاکستان کے آئین میں شامل نہیں کیا جا سکا؟ اور کیا عمران خان گلگت بلتستان کو پاکستان کا ائینی صوبہ بنا سکتا ہے؟
ان اہم سوالات کے جواب ہمیں سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ میں ملتے ہیں جن کی سفارشات کے نتیجے میں عبوری صوبے کا منصوبہ سامنے آیا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسے گنڈا پور صاحب نے مشروط صوبے کا نام دیا ہے.
اہم بات یہ ہے کہ چین پاکستان اکنامک راہداری منصوبے کے قیام کے بعد گلگت بلتستان کی اہمیت سرینگر سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور ساری دنیا کی نظریں اس وقت گلگت بلتستان پر ہے, متحارب قوتوں کے درمیان سیاسی اور معاشی محاذ آرائی بھی کھل کر سامنے آئی ہے جسے نیو گریٹ گیم بھی کہا جارہا ہے.
اس لئے پاکستان کے زیر انتظام خطہ گلگت بلتستان سے گزرنے والے سیپیک کو قانونی تحفظ فراہم کرنا لازمی ہے جس کے لئے گلگت بلتستان میں آئینی اور انتظامی اصلاحات کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کےدور حکومت میں وزارت خارجہ کے زیر نگرانی سرتاج عزیز کمیٹی بنائی گئی.
سرتاج عزیز کمیٹی نے مورخہ 17اگست 2015 گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی تیسری سیشن میں پاس کی گئی ایک قرارداد کو اپنے سفارشات کا بنیاد بنایا.
گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد کا متن ذیل میں دی جا رہی ہے:
” گلگت بلتستان کا 72 ہزار مربع کلو میڑ پر پھیلا ہوا 20 لاکھ آبادی پر مشتمل علاقہ 1948 میں ڈوگروں کے تسلط سے آزاد کرایا گیا اور جذبہ ایمانی کے تحت مملکت خداداد پاکستان میں شامل کیا گیا. بدقسمتی سے تاحال اس خطے کو آئینی حقوق سےمحروم رکھا گیا ہے.
"گلگت بلتستان کے عوام نے اس مقتدر ایوان کے اراکین کو ووٹ دے کر منتخب کیا ہے.
"حکومت کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں منصفانہ اور آزادانہ راۓ شماری کے ذریعے کشمیر کا فیصلہ ہونے تک قومی اسمبلی ,سینٹ اور تمام قومی اداروں میں نمائیندگی دیا جاۓ.
"اب جب کہ حکومت نے وقت کی نزاکت اور ضرورت کے پیش نظر اس خطے کو آئینی حقوق دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، لہذا گلگت بلتستان کا یہ مقتدر ایوان بھر پور مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کو فوری طور پر آئینی صوبے کی حثیت دے کر یہاں کے عوام کی دیرینہ محرومی کو دور کیا جاۓ”.
سر تاج عزیز کمیٹی رپورٹ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ متنازع ریاست جموں اینڈ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مسئلہ کشمیر پر ریاست کے اصولی موقف کو مدنظر رکھتے ہوۓ انہوں نے دستور پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرنے کی سفارش نہیں کیا بلکہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے ایک عبوری صوبہ کے قیام کی سفارش کی ہے.
سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ کے پیراگراف نمبر 31کے آخری جملے میں گلگت بلتستان کی متنازع حثیت کے بابت لکھا گیا کہ
Th UNCIP,vide their Resolutions dated 13th August 1948 and 5th January 1949 ,had included the Northern Areas in the State of (J&,K) for the purpose of overall plebiscite .”
(اقوام متحدہ کی کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان نے اپنے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کے قراردادوں کے ذریعے ناردرن ایریاز کو استصواب رائے کی خاطر ریاست جموں و کشمیر میں شامل کیاہے)
مسئلہ کشمیر پر تسلیم شدہ اس ریاستی بیانیہ پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 17 جنوری 2019 کے اپنی تاریخی فیصلہ میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کا حوالہ دیتے ہوۓ مہر تصدیق ثبت کیا. معزز عدالت نے اپنے فیصلہ کے پیرگراف نمبر پندرہ میں لکھا ہے کہ:
"آج تک ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں کے لئےصورت حال بالآخر أبھر کر سامنے آئے گی اور سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے دیگر حصوں کے لیے بھی اس امنگ کا اظہار ائین کے ارٹیکل 257 میں شامل کیا گیا ہے. جس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ "جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کے خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے”.
سرتاج عزیز کمیٹی نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے سے نہ صرف کشمیر پر ریاست کا اصولی موقف کمزور ہوگا بلکہ ہندوستان پاکستان کے اس اقدام کو اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے. اس لئے اقوام متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو کمزور کئے بنا سرتاج عزیز کمیٹی نےگلگت بلتستان کو ایک عبوری صوبہ بنانے کے لیے مندجہ زیل سات سفارشات پیش کیں:-
.
1. گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے گلگت بلتستان کو عبوری خصوصی صوبے کی حثیت دی جاۓ تاکہ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی پاس کی گئی قرارداد کا یہ اچھا جواب ہوگا.
2. اس انتظام کے تحت گلگت بلتستان کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمایندگی دینے کے لئے دستور پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرنے کی بجاۓ آرٹیکل 51 اور 57 میں ترمیم کیا جاۓ.
3 .چونکہ قومی اسمبلی میں نمایندگی آخری مردم شماری کے مطابق دی جاۓ گی اس لئے گلگت بلتستان تین خصوصی نشستوں کا حقدار ہوگا اور گلگت بلتستان کے تین ڈویژن کو ایک ایک نشست ملے گی. ساتھ میں خواتین کی ایک سیٹ بھی دی جاۓ گی جس سے گلگت بلتستان اسمبلی منتخب کرے گی. یہ حکم نامہ صدر آئین پاکستان کے آرٹیکل 258 کے تحت جاری کرۓ گا ان نشستوں کو مہیا کرنے کے لئے آئین کےآرٹیکل 51(4) میں ترمیم کیا جاۓ گا .اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے مکمل حل تک پاکستان کی کشمیر پر اصولی موقف کو متاثر کئے بنا یہ چار نشستیں اس وقت پوری کی جائیں گی جب صدر پاکستان فرمان جاری کرۓ گا .
4. اسی طرح پاکستان کی سینٹ میں بھی گلگت بلتستان کو کل 3 نشستیں دی جایئں گی ہر ڈویژن کو ایک نشست ملے گی. اس کے لئےآئین پاکستان کےآارٹیکل 59 میں
ترمیم کی جاۓ گی.
5. گلگت بلتستان کو دیگر صوبائی اسمبلیوں کے برابر لانے کے لیۓ تمام Legislative subjects سواۓ آئین کے آرٹیکل 142 اور اس کے شیڈول چار میں بیان کیا گیا اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت اور اس سے متعلق انتظامی اختیارات کے ساتھ گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل کو دی جائیں گی.
6 .گلگت بلتستان کو تمام آیئنی اداروں NEC, NFC, IRSA میں نمایندگی دی جاۓ گی. جس طرح آزاد جموں و کشمیر کو دعوت نامے کے تحت اس میں شریک کیا گیا ہے اسی طرح خصوصی دعوت نامے کو بڑھا کر گلگت بلتستان کو بھی شریک کیا جاۓ.
7. جتنی جلدی ممکن ہو سکے بلدیاتی اداروں کو گلگت بلتستان میں متعارف کروایا جاۓ.
اگر ان سفارشات پر غور کیا جاۓ تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جب تک آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم نہ کیا جاۓ، گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں بن سکتا ہے.
اس طرح یہ بات بالکل واضح ھے کہ عبوری صوبے سے مراد ایک ایسا صوبہ ھے جو ایک صدارتی حکم نامے کے تحت بنایا جاۓ گا جیسا کہ سرتاج عزیز کمیٹی میں سفارش کی گئی ہے البتہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں نمایندگی دینے کے لئے دستور پاکستان کے آرٹیکل 51 ,57 اور 59 میں ترمیم کرنا پڑے گا.
البتہ اھم ترین قانونی بات یہ ہے کہ عبوری صوبہ یا مشروط صوبہ بنایا گیا تو بھی گلگت بلتستان ،آئین پاکستان کے مطابق اس کے جغرافیائی حدود سے بدستور باھر ھی رھے گا. چونکہ UNCIPکے 13 اگست 1948اور پانچ جنوری1949کےقراردادوں کے تحت موجودہ تمام گلگت بلتستان کو متنازع اور ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ھے جس کی تصدیق سپریم کورٹ اف پاکستان نے بھی کی ہے.
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جن قراردادوں کا حوالہ دے کر گلگت بلتستان کی اسمبلی نے قرارداد پاس کرکے آئنیی صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا ہے , اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر پاس کی گئی ان ہی قراردادوں میں سے ایک اہم قرارداد جو کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 122 کہلاتا ہے , جس میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ ان اسمبلیوں کے پاس ایسا اختیار ہی موجود نہیں ہے جس کے تحت وہ ریاست کی مستقبل کا فیصلہ کریں.
اس لیے حکومت پاکستان اگر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ان تمام بین الاقوامی قوانین کو یکسر مسترد کرتے ہوۓ آئین پاکستان کےآرٹیکل 1 میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو پاکستان کی جیغرافیائی حدود کے اندر شامل بھی کرے تو اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی اور قبولیت حاصل نہیں ہوگی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ علاقے بدستور Defacto ہی تصور ہونگے.
بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 سیکشن 4 کے تحت گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر پر استصواب رائے سے قبل آئین پاکستان کے آرٹیکل 1میں ترمیم کرکے ریاست پاکستان میں شامل کرنا ممکن نہیں ہے چونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کوئی بھی UN ممبر ملک کی پارلیمنٹ اس طرح کی قانون سازی نہیں کر سکتی ھے جو بین الاقوامی قوانین سےمتصادم ھو اور خاص طور پر اگر وہ ملک از خود کسی بین الاقوامی قراردار کا Signatory ہو.
اس لئے سرتاج عزیز کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے مکمل حل تک ایک صدارتی حکم نامے کے تحت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی سفارش پر ہی اکتفا کیا جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کی آبادی کے تناسب سے کل تین نشستیں ملیں گی جبکہ سینٹ میں بھی کل تین ارکان کو نمایندگی ملے گی جبکہ تمام قومی اداروں میں آزاد کشمیر کی طرح خصوصی دعوت نامے کے تحت شرکت کا موقعہ دیا جاۓ گا اور یہ ہوگا عبوری صوبہ .
واضح رہےکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 59 کے تحت سینٹ کے ممبران کی کل تعداد 104 ہے اور سینٹ میں نمایندگی آبادی کی بنیادی پر نہیں بلکہ صوبوں کو برابری کی بنیادی پر
دی جاتی ہے تاکہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے اپنے علاقے کے مفادات کا تحفظ کر سکیں.
سرتاج عزیز کمیٹی نے سینٹ میں دیگر چار صوبوں کے برابر نمایندگی یعنی 24 نشستیں دینے کی بجاۓ گلگت بلتستان کو صرف تین نشستیں دینے کی سفارش کی ہے جوکہ عبوری صوبے کی خصوصی ثمرات میں سے ایک ہے.
دوسرے الفاظ میں عبوری صوبہ کے قیام کی صورت میں مندرجہ زیل بنیادی سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں:
کیا عبوری صوبے کی قیام کے بعد گلگت بلتستان کونسل اور سپریم اپیلٹ کورٹ کو ختم کیا جاۓ گا ؟
چونکہ صوبہ بننے کی صورت میں پورے ملک میں ایک ہی سپریم کورٹ ہوتا ہے اور سینٹ میں نمایندگی کے بعد جی بی کونسل کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا. ٗالبتہ اہم سوال یہ ہے کیا گلگت بلتستان کے تین ممبران کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں دیگر صوبوں کے ممبران کی طرح قانون سازی میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا یا بحثیت مبصر نمایندگی دی جاۓ گی؟
کیا عبوری صوبے کے قیام کی صورت میں گلگت بلتستان میں تمام تر ٹیکس لاگو ہونگے؟
گندم کی سبسیڈی کا خاتمہ ہوگا اور سینٹ میں دی گئی صرف تین نشستوں پر براجمان نمایندے کیا گلگت بلتستان کے حقوق کا تحفظ کر پائیں گے؟
اس کے علاوہ اس اقدام کے نتیجے میں گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کا تناسب بھی تیزی کے ساتھ بدل جاۓ گی اور اسی صورت میں انڈیا کے زیر تسلط کشمیر میں مودی سرکار کی جارحیت اور غیر قانونی اقدام کے تحت مقبوصْہ کشمیر میں مقامی آبادی کی تناسب بدلنے پر اعتراض کرنے کا کیا جواز باقی رہے گا؟
کیا بین الاقوامی برادری اور کشمیریوں کی حمایت بدستور پاکستان کو جاری رہے گا؟
کیا گلگت بلتستان کو عبوری صوبے بنانے کے بعد ‘کشمیر بنے گا پاکستان’ والا نعرہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگا؟
عبوری صوبے کے قیام کے نتیجے میں کیا سی پیک کو بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی برادری اور عالمی اداروں کی قبولیت اور حمایت حاصل ہوگی؟
ان تمام اہم سوالات کا جواب دینا قبل از وقت ہے مگر عبوری صوبے کے قیام کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کو ان سوالات کا جواب مل جائے گا. البتہ یہ بات طے کہ جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اور زیر نگرانی میں مسئلہ کشمیر پر صاف و شفاف اور آزادانہ راۓ شماری کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں تب تک گلگت بلتستان کو ائینی صوبہ بنانا ممکن نہیں ہے.
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلستاتن چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں بینالاقوامی قوانین کے اوپر لیکچر دیتے ہیں.