Baam-e-Jahan

‘ہندرپ-شندور نیشنل پارک’ تنازعہ ، ذمہ دار کون؟

تحریر : عنایت ابدالی

ہندراپ-شندور نیشنل پارک کا تنازعہ جو گزشتہ ایک سال سے چل رہا ہے اس میں اب شدت آگئی ہے۔
گزشتہ دنوں گلگت کے ایک مقامی شخص نےلنگر جو کہ نیشنل پارک کا حصہ ہے پر مچھلیاں پکڑاہے جس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے۔ اس تصویر کی بنیاد پر سیکرٹری جنگلات گلگت بلتستان نے اس شخص کو اپنی عدالت میں طلب کرکے زبردستی اس سے معافی منگوائی اور تین ہزار روپے جرمانہ بھی کیا ہے۔
ہندراپ -شندور نینشل پارک” کا نوٹیفکیشن 1994 میں ہوگیا تھا جس پر مقامی لوگوں نے اعتراضات کرکے حکومت کو عملدرآمد سے روک دیا تھا۔ لوگوں کو خدشہ تھا کہ نیشنل پارک کی آڑ میں ان کی پشتنی مشترکہ زمینوں اور وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔

مقامی لوگوں کی مخالفت کے بعد حکومت اس نیشنل پارک پر عملدرآمد نہیں کرا سکی یوں مقامی لوگوں یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھاتے رہے اور اپنی زمینوں پر قابض رہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے "ہندراپ شندور نیشنل پارک ” پر عملدرآمد رکا ہوا تھا تو کس بنیاد پر اس شخص کے خلاف یہ قدم اٹھایا گیا؟کیا اس نیشنل پارک پر عملدرآمد کےلیے مقامی لوگوںکو اعتماد میں لیا ہے؟ اگر لیا ہے تو تحریری طور پر مقامی لوگوں کی رضا مندی اور مفاہمتی یادداشت یا کوئی قرارداد آیا ہوگا اس کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔ اگر اس نیشنل پارک پر مقامی لو گوںکو اعتماد میں لے کر عملدرآمد کیا جا رہا ہے تو اس کی تشہیر بروقت کیوں نہیں کی گئی؟

لنگر کوکش میں مچھلیوں کے شکار پر پابندی کے دوران بھی مختلف لوگ خصوصی اجازت ناموں پر کھلے عام شکار کرتے رہے ہیں اگر نیشنل پارک تھا تو ان کو خصوصی اجازت نامے کیوں اور کس نے جاری کردیا ؟

مقامی و غیر مقامی بیوروکریسی ہفتہ وار یہاں پر کھلے عام کیمپنگ اور فیشنگ کرتے رہے ہیں کیا ان پر نینشل پارک کے قوانین لاگو نہیں ہوتے ہیں؟
ان سوالات اور واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ نیشنل پارک کی آڑ میں ہندراپ ،لنگر اور شندور کی زمینوں پر قبضے کرکے مقامی لوگوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
محکمہ جنگلات کی جانب سے نگران سیٹ اپ کے اندر اس طرح کے اقدامات کرنے پر بھی چند سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔

آرڈر 2018 کے تحت محکمہ جنگلات کو گلگت بلتستان اسمبلی کے ماتحت کردیا گیا ہے گلگت بلتستان کے جنگلات اور جنگلی حیات کے حوالے سے مکمل قانون سازی کے اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو دئیے گئے ہیں ۔ایسے میں اسمبلی کی غیر موجودگی کے دوران 1993 کے ایک نوٹیفیکیشن جس کی مقامی لوگوں نے بھرپور مخالفت کی تھی پھر عملدرآمد کرانے کی کوشش سے سازش کی بو آ رہی ہے۔ یاد رہے کہ لاسپور چترال سے بھی اس نیشنل پارک کی بھرپور مخالفت ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ نیشنل پارک کے قوانین کے مطابق مقامی لوگ اس احاطے میں کوئی تعمیرات یا سرگرمی نہیں کر سکیں گے.

آج کے دور میں جنگلی حیات کے تحفظ کا تصور ہی بدل گیا ہے اور بیوروکریسی کے ذریعے نیشنل پارکوں کی انتظامات کاپرانا ماڈل ناکام اور متروک ہو چکا ہے اور مقامی کمونیٹی کے زیر انتظام نیشنل پارک اور کززویشن کے متبادل نظام دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے جس کی مثال وادی شمشال گوجال کا ماڈل ہے۔ وہاں کے لوگوں نے 90 کی دہائی میں زبردست مزاحمت کے بعد اپنے چراگاہوں اور زمینوں پر اپنا حق جتانے اور جنگلی حیات کے تحفظ کا انتظام حکومت کو دینے کی بجائے خود سنبھالا اور شمشال نیچر ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرکے اپنے زمینوں اور چراگاہوں اور قدرتی وسائل پر اپنی ملکیت کو قائم کرکے قانونی شکل دی.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے