تحریر: گل مراد خان حسرتؔ
تاریخی لحاظ سے چترال کی تاریخ وسط ایشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ آریہ نسل کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ انہیں نامور مایر آثار قدیمیہ اور تاریخ دان احمد حسن دانی نے گندھارا گریو کلچر کے نام سے نشاندہی کی ہے اور انہیں انڈو آرین کہا ہے۔ پروفیسر احسان علی اور سٹاکول نے ان کو "درد” (دردستان کے رہنے والے) کے نام سے موسوم کیا۔ جرمن مایر آثار قدیمہ کارل جیٹمار کے مطابق ہندوکش اور دردوں کا علاقہ ہخامنشی ایرانی سلطنت میں شامل اور اقلیم باکتاریہ یعنی صوبہ بلخ کا حصہ تھا۔ چینی سفیر چنگ کیئن کے مطابق 140 قبل مسیح میں یو چی قوم ترکستان سے بلخ اور بخارا کی طرف آئی. ان کے مطابق 134 قبل مسیح اور 140 ق م کے درمیان یو چی سلطنت پانچ حصوں میں تقسیم تھی۔ ان میں سے ایک شوانگ می (چترال) بھی تھی۔ 120 ق م کے لگ بھگ جب یو چی کا عظیم بادشاہ تخت پر بیٹھا تو یہ پانچ منقسم ریاستیں کشان نام اختیار کرکے ایک ملک بن چکے تھے۔ کنشک کا دارالحکومت پرش پورہ یعنی پشاور تھا اور اس کی حکومت کاشغر اورختن تک پھیلی ہوئی تھی۔
چوتھی صدی عیسوی کے بعد "ہن” قوم تاریخ کے صفحے پر نمودار ہوئی۔ وہ منگولیا سے نکل کر ترکستان پر قابض ہوئے اور 425ء میں انہوں نے بلخ کو بھی اپنے زیرنگین لے آئے۔ چینی زائر سنگ ین جو 518ء میں گندھارا آیا تھا، اپنے سفر کے دوران شی می کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ علاقہ مشرق میں ہنزہ سے لے کر مغرب میں چترال تک پھیلا ہوا تھا۔
عرب مورخین نے چین کے لئے خطائی (خطوئی) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چترال میں خطائی کے دو ادوار گزرے ہیں۔ 641ء میں چین نے مشرقی ترکستان، پامیر اور واخان پر قبضہ کرنے کے بعد چترال پر بھی قابض ہوا اور اپنا گورنر یہاں مقرر کیا۔ کئی دفعہ تبت کے حکمراں نے آگے بڑھ کر مزاحمت کی لیکن چین نے اسے شکست دے کر ان علاقوں پر اپنی عملداری قائم کی۔ چین کے اقتدار کا مکمل خاتمہ اس وقت ہوا جب کرغزیہ کے تالاس کے مقام پر عرب مسلمانوں اور چینی فوجوں میں جنگ چھڑ گئی اور چینیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھئے: https://baam-e-jahan.com/%da%86%d8%aa%d8%b1%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%88%d8%b3%d8%b7-%d8%a7%db%8c%d8%b4%db%8c%d8%a7-%da%a9%db%92-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae%db%8c-%d8%b1%d9%88%d8%a7%d8%a8%d8%b7-1/
خطائی کا دوسرا دور 1125ء سے شروع ہوتا ہے جب خطائی کا ایک منگول شہزادہ چن قبیلے کے ہاتھوں شکست کھا کر منچوریا سے راہ فرار اختیار کیا اور مغرب کی طرف آکر ترکوں اور منگولوں پر مشتمل فوج تیار کرکے ترکستان کو فتح کیا اور گور خان کا لقب اختیار کرکے حکومت شروع کی۔ ترکی کے لوگ اس گور خان کو یور خان (یورخون) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق یور خون کی حکومت چترال بالا تک وسیع تھی اور بریپ کو اپنا صدر مقام بنا کر وہاں ایک قلعہ بھی بنایا تھا۔ لوگ اس لشکر کوخطائی کا لشکر کہتے تھے۔ لہٰذا اس قلعے کو خطائی کے قلعہ کا نام دیا گیا ہے اور اس علاقے کا نام یورخون کی مناسبت سے یارخون پڑگیا۔
یور خون اور اس کے جانشین 1219ء تک وسط ایشیاء پر حکومت کرتے رہے۔ 1219ء میں چنگیز خان کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کے مقبوضات میں یورخونی حکومت ختم ہوئی اس کے بعد چترال بالا میں سوملک کی حکومت شروع ہوئی۔ ممکن ہے کہ چنگیز خان ہی نے سوملک کو گورنر بناکر چترال بھیجا ہو۔ چنگیز خان کے بعد وسط ایشیاء کے علاقے ان کے بیٹے چغتائی خان کے حصے میں آئے اس کے بعد اس کی اولاد ان علاقوں پر حکومت کرنے لگی۔ چغتائی کی چھٹی پشت سے مشرقی ترکستان کا حکمران تغلق تیمور خان نے اسلام قبول کیا (اس کو ترک امیر تیمور نہ سمجھا جائیں)۔ تغلق تیمور خان کی نسل سے سلطان سعید خان نے 1514ء سے 1533ء تک مشرقی ترکستان پر حکومت کی۔ 1527ء کو اس نے اپنے بیٹے رشید خان کو اپنے جرنیل مرزا حیدر دوغلت (دولت) کے ہمراہ بلور پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا (اس زمانے میں چترال اور اردگرد کے علاقوں کو بلور کہا جاتا تھا)۔ مرزا حیدر دوغلت اپنی خود نوشت تاریخ کی کتاب ‘تاریخِ رشیدی’ میں بلور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "بلور ایک کافرستان ہے جہاں ایک بھی مسلمان نہیں”۔
میرزا محمد حیدر خان دوغلت
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 28-1527ء میں چترال اور آس پاس کے علاقے بدستور کافرستان تھے۔ گمان یہ ہے کہ وہ یارقند سے روانہ ہوکر ہنزہ آئے تھے اور وہاں سے گلگت، یاغستان، یاسین، چترال، چقانسرائی اور باشگال یعنی نورستان سے ہوتے ہوئے بدخشان (واخان) کے راستے واپس کاشغر پہنچے تھے۔ اس سفر میں انہیں چار ماہ کا عرصہ لگا۔ انہوں نے بلور میں کافروں سے جنگ لڑی اور ہر جگہ فتح یاب رہے اور کثیر مال غنیمت حاصل کیا۔ 1533ء کو سلطان سعید خان وفات پاگیا تو ان کا بیٹا رشید خان سلطنت کاشغر کا خان بنا۔ ہولز ورتھ کی تحقیق کے مطابق اس کے عہد میں دو بار بلور پر حملے کئے گئے۔ پہلے حملے میں ناکامی ہوئی جبکہ 1540ء کے بعد دوسرے حملے میں بلور فتح ہوا اور سلطنت کاشغر کا حصہ بن گیا۔ بلور میں کاشغر کی طرف سے فوجی اور انتظامی عہدیدار مقرر کیے گئے اور انتظام کے لئے گورنر یا نائب الحکومت مقرر ہوئے۔ اس عہدے کو وسط ایشیا میں رئیس کہا جاتا تھا۔ یہ کوئی خاندانی نام نہیں بلکہ ایک عہدے کا نام تھا اور مختلف وزارتوں کے لئے بھی وسط ایشیائی نام اختیار کئے گئے مثلاً اتالیق، حاکم، دیوان بیگی، اسقال،میرِ شکار، میر اخور وغیرہ۔ رئیسِ اول نے موجودہ مرکزی چترال میں ژانگ بازار کو اپنا مرکز بنایا جہاں اس نے چترال کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ یوں پہلی بار چترال میں اسلام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بدخشان، بلخ اور بخارا سے علماء کو طلب کیا گیا اور غیر مسلم جو اسلام کے دائرے میں آتے رہے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام عمل میں لایا گیا۔ جب عوام کی ایک مناسب تعداد مسلمان ہوئی تو تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لئے قاضی مقرر کئے گئے۔ زمین، چراگاہ شکارگاہ اور باری کے ہانی کی تقسیم کے قوانین بنے اور کم و بیش انہی قوانین پر چترال میں اب تک عمل ہوتا آرہا ہے۔ انہوں نے مفتوحہ علاقے کی بڑی جائیدادیں سابقہ دہقانوں میں تقسیم کیے تاکہ وہ ان کی پیداوار حکمران کے پاس جمع کرے اور خود بھی مناسب حصہ اپنے استعمال میں لائے۔ ان دہقانوں کو وہ رایت کہتے تھے۔ رایت ترکستان میں فرزند زمین کو کہا جاتا تھا۔ رئیسوں کی حکومت 1700ء تک رہی۔
ہولز ورتھ کی تحقیق کے مطابق کاشغری اقتدار کے دور میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ہولز ورتھ ازبک مورخ بی اے احمدوف کے حوالے سے لکھتا ہے کہ 1598ء میں رستاق یعنی شمال مغربی بدخشان میں اُزبک فاتحین کے خلاف میروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شاہ بابر کی قیادت میں بغاوت یوئی جس میں شاہ بابر کو شکست ہوئی تو وہ راہ فرار اختیار کرکے بروغیل اور دارکوت کا درہ عبور کرکے یاسین پر قابض ہوا اور اپنی حکومت قائم کی۔ اس پر کاشغر کے خان عبداللہ خان چغتائی نے 1640ء میں شاہ بابر کے خلاف ایک کامیاب فوجی مہم کی قیادت کی۔ تاریخِ کاشغر کے مطابق سریقول اور واخان کے عسکری لیڈروں نے اس کے گائیڈ کے طور پر کام کیا۔ وہ بروغیل کا درہ عبور کرکے چترال کا راستہ اختیار کیا۔ یارخون لشٹ میں اس نے جو پڑاؤ ڈالا تھا اسے لوگ عبداللہ خان لشٹ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ غالباً درہ چمرکھن سے گزر کر یاسین پہنچا تو شاہ بابر کو قلعہ بند پایا۔ جلد ہی شاہ بابر نے اطاعت قبول کرکے اپنے بیٹے شاہ رئیس کو خراج ادا کرنے کے لئے بھیجا۔ چغتائی خان نے یاسین کا علاقہ شاہ بابر کو واپس دے دیا۔ اس دوران چترال کےدوسرے علاقوں میں بدستور رئیس کی حکومت تھی اور چترال میں رئیس شاہ ناصر حکمران تھا۔ ایک اور تاریخی روایت کے مطابق رئیس حکومت نے 1635ء سے 1640ء تک خان آف بلخ کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ اس وقت بخارا میں خاندان استر خانیہ کی حکمرانی تھی۔ امام قلی خان بخارا کا خان تھا اور اس کا بھائی نزر محمد خان اس کی طرف سے بلخ کا گورنر مقرر تھا۔ یہ چنگیز خان کے بیٹے جوجی خان کی اولاد میں سے تھے جنہوں نے صدیوں پہلے اسلام قبول کیا ہوا تھا۔(جاری ہے)
گل مراد خان حسرت کا تعلق چترال سے ہے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
One thought on “چترال اور وسط ایشیا کے تاریخی روابط-2”
Pingback: چترال اور وسط ایشیا کے تاریخی روابط-(3) – Baam-e-Jahan