Baam-e-Jahan

جنگ آزادی گلگت بلتستان میں برطانوی ایجنٹ ولیم براؤن کا کردار-1

تحریر. اشفاق احمد ایڈووکیٹ.

گلگت بلتستان دنیا کے اہم ترین جیو اسٹراٹیجک مقام پر واقع ہے. اس کے شمال مغرب میں واخان کی پٹی اسے تاجکستان سے الگ کرتی ہے. جبکہ شمال مشرق میں چین کے مسلم ایغور اکثریتی صوبہ سنکیانگ کا علاقہ واقع ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستان کے زیرانتظام جموں وکشمیر، اور جنوب میں پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواء واقع ہے۔

کوہ ہمالیہ, ہندوکش اور قراقرم کے دامن میں واقع یہ خطہ نہ صرف اپنی قدرت حسن بلکہ جغرافیائی دفاعی اہمیت کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے اور تاریخی طور پر عالمی طاقتوں کے درمیان بازی بزرگ یا گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے.

John Keay اپنی مشہور کتاب "دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ "گلگت کی اسٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لائے جہاں ہندوستان، چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں. اس خطے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے انہوں نے اسے ریڑھ کی ہڈی، محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چین کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے۔ اس اہمیت کی وجہ سے ہی یہ خطہ بیرونی تسلط اور جارحیت کا شکار رہا ہے -تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1840ء کے بعد سے یہ علاقہ سکھ، ہندو ڈوگرہ، مغلوں اور تاج برطانیہ کے زیر تسلط رہاہے۔ .

بقول Martin Sokefeld یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1840ء کے وسط کے بعد کئی دہائیوں تک کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت پراپنا تسلط قائم کرنے کے لئے مقامی حریف حکمرانوں بالخصوص وادئ یاسین کے حکمرانوں کے خلاف مہم جوئی کیں. گلگت کے لوگ اس طاقت کی رسہ کشی کی وجہ سے بے انتہا نقصان اٹھا چکے ہیں. جنگ اور غلامی نے ان کی آبادی ختم کردی ہے۔”.

راجہ گوہر امان کے دور سے ہی اس خطے کے عوام نے اپنی قومی بقاء اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی اور یکم نومبر 1947ء کو گلگت بلتستان سے تاج برطانیہ اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا۔


برطانوی ایجینٹ میجر ولیم براون

جنگ آزادی گلگت بلتستان میں گلگت سکائوٹس کے انگریز کمانڈنٹ میجر براؤن کو ایک مکتبہ فکر نے ہیرو کا درجہ دیا جبکہ دوسرا متکبہ فکر کا کہنا ہے کہ وہ نوآبادیاتی ایجنٹ تھے۔
اگرچہ تاریخ میں فرد کا رول اہم ہوتا ہے مگر انقلاب گلگت میں مقامی ہیروز اور عوام کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا.

لہذا یہ بات درست ہے کہ انگریز ایجنٹ ولیم براؤن جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم مگر متنازعہ کردار رہا ہے جس کی وفات کے چودہ سال بعد اس کی یادداشت Gilgit Rebellion (بغاوت گلگت) کے نام سے انگریزی زبان میں شائع کروائی گئی اور ہمارے سرکاری دانشوروں نے اس کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان یکم نومبر 1947ء کے بارے میں سرکاری بیانیہ ترتیب دینے میں بنیادی کردار ادا کیا.

ہندوستانیوں کی انگریز نو آبادیاتی حکومت کے خلاف آزادی کی پہلی جنگ کو انگریزوں نے "غدر” یا "بغاوت” کا نام دیا تھا. چونکہ ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی اور ان کے جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنچ کیا تھا. اس لئےتقریبا تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت کا نام دیا.جبکہ دوسری طرف ہندوستان کےمقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا. حالانکہ اس جنگ میں مسلمانوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بری طرح شکست دے کر بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور جنگ کے بعد اگست 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ملکہ وکٹوریہ کے حکمنامہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کردیا.سنہ 1857ء میں ہندوستان میں تعینات انگریز سیکریٹری اف سٹیٹ فار انڈیا Earl Stanley نے برطانوی پارلیمنٹ کو اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوۓ اسے بغاوت کا نام دیا پھر اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا.

بلکل اسی طرح بغاوت گلگت نامی کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو کچھ لوگ بغاوت گلگت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں جوکہ حقیقت کے برعکس اور ایک نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہونے کی وجہ سے قابل چیلنج ہے.

ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف 1857ء کی جنگ میں شکست ہوئی تھی اس کے برعکس جنگ آزادی گلگت بلتستان میں ڈوگرہ افواج کو شکست ہوئی اور اس خطے سے ان کی اقتدار کا خاتمہ ہوا.

جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اس خطہ کے مقامی لوگ گلگت سکاؤٹس کے فوجیوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوۓ اور گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا اس لئے گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کو بغاوت کا نام دینا نوآبادیاتی سوچ اور پالیسی کا تسلسل ہے. حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل ہی 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجا ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ مشروط طور پر کیا تھا جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان یکم نومبر 1947ء کو اس وقت کیا جب ڈوگرہ گورنر کوگلگت سے گرفتار کرکے دارلخلافہ کو آزاد کروایا گیا. اسسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ دستاویز الحاق نامے پر انقلاب گلگت بلتستان سے پہلے دستخط کیے تھے- جبکہ گلگت بلتستان کے عوام نے گلگت سکاؤٹس کے ساتھ مل کر تقسیم ہند کے بعد یکم نومبر 1947ء کو آزادی حاصل کی ہے .
دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قومی آزادی کی جنگ میں جب دارلخلافہ سے بیرونی تسلط کا خاتمہ ہوتا ہےتو آزادی کا اعلان کیا جاتا ہے. بالکل اسی طرح یکم نومبر 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی افواج کے برگیڈیر گھنسارا سنگھ جو اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر تھے کو گلگت میں گرفتار کرنے کے بعد ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان کیا. اور پھر اس خطے کےدیگر علاقوں کو آزاد کرایا گیا- مثلاً انقلاب گلگت کے نتیجے میں ہی بلتستان کو 1948ء میں آزاد کرایا گیا. اس کا یہ مطلب ہے کہ یکم نومبر کو آزادی گلگت بلتستان کے اعلان کا اطلاق صرف گلگت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق پورے گلگت بلتستان پر ہوتا تھا جہاں ڈوگرہ حکومت کا قبضہ برقرار تھا۔ .


برگیدئیر گھنسارا سنگھ اپنے اپ کو کیپٹن بابر کے ھوالے کر رہے ہیں

لہذا جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت کہنا نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ہے اور اس بیانیہ کا واحد مقصد گلگت بلتستان کی آزادی کو متنازعہ بنانا اور تاریخ کو مسخ کرنا ہے تاکہ یہاں کے مقامی لوگ بین الاقوامی مروجہ قوانین کے تحت دنیا کے دیگر آزاد اقوام کی طرح اپنے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے مطالبے سے دستبرار ہوجائیں۔.

دلچسپ بات یہ ہے کہ میجر براؤن کی وفات کے 14 سال بعد شائع کی گئی کتاب کا نام بھی بغاوت گلگت رکھا گیا اور گذشتہ چند سالوں سے کچھ نام نہاد لکھاری ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگ آزادی گلگت بلتستان کو میجر براؤن کی اس کتاب کو بنیاد بنا کر بغاوت گلگت اور اپریشن دتہ خیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں- حالانکہ گلگت بلتستان میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ "بغاوت گلگت” کوئی مستند تاریخی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو برٹش ایجنٹ تھا اور درحقیت یہ کتاب ولیم براؤن کی اصلی ڈائری پر بھی مشتمل نہیں ہے. نہ ہی اسے انہوں نے اپنی زندگی میں شائع کروایا تھا. تو پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس کتاب کا نام بغاوت گلگت رکھا؟ اور اس کتاب کی تدوین کی اور میجر براؤن کو انقلاب گلگت کے ہیرو اور اپریشن دتہ خیل کے موجد کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا؟ حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اہم کردار گلگت سکاؤٹس کے مقامی فوجی جوانوں اور عوام نے ادا کیا تھا جنہوں نے اپنےوطن کو بیرونی تسلط اور ڈوگرہ افواج کی غیر قانونی قبضہ سے آزاد کروایا تھا جبکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں میجر براؤن کا کردار مشکوک رہا ہے. چونکہ وہ ایک غیر مقامی نوابادیاتی ایجنٹ تھے جس کی بنیادی ذمہ داری اس علاقے کے عوام کو غلام بناۓ رکھنا تھا نہ کہ ان کو آزادی دلانا. اس لئے ان اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ جاننا لازمی ہے کہ اس شخص کا گلگت ایجنسی میں بنیادی کردار کیا تھا؟ (جاری ہے).

اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلتستان چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں‌ بین اللقوامی قوانین پر لیکچر دیتے ہیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے