.
تحریر اشفاق احمد ایڈووکیٹ
میجر ولیم براون نے 1941ء کو برٹش انڈیا میں فرننٹیر فورس رجمنٹ میں بحثیت سکینڈ لفٹیننٹ کمیشن حاصل کیا اور ان کی جنوبی وزیرستان میں تعینات کیا گیا.
1943ء کے ابتدائی آیام میں ان کا تبادلہ گلگت ایجنسی کیا گیا جہاں انہوں نے بحثیت اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجینٹ براۓ چلاس تین سال تک ملازمت کی اور وہاں ایک پولوگروانڈ بھی تعمیر کروایا. کہا جاتا ہے کہ وہ پولو بہت شوق سے کھیلتا تھا اور شینا زبان بھی سیکھ لیا تھا.
پھر 1946ء میں اسے Tochi Scouts شمالی وزیرستان ٹرانسفر کیا گیا پھر کچھ عرصہ بعد اسے بحثیت اسسٹنٹ کمانڈنٹ سکاؤٹس کے طور پر چترال ٹرانسفر کیا گیا.
مختصر وقت چترال میں گزارنے کے بعد اسے کمانڈنٹ آف گلگت سکاؤٹس کا عہدہ آفر کیا گیا جو انہوں نے قبول کیا اور اس کو ایکٹنگ رینک آف میجر کا عہدہ دیا گیا اسطرح میجر براؤن 29 جولائی 1947 کو گلگت پہنچا , یہ گلگت کی تاریخ کا ایک اہم موڈ تھا جب گلگت لیز ایگریمنٹ 1935 کو تاج برطانیہ نے ختم کیا اور یکم اگست 1947 کو گلگت ایجنسی مہاراجا ہری سنگھ کو واپس کردیا گلگت ایجنسی سے تاج برطانیہ کا جھنڈا اتارا گیا اور مہاراجا کی ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا حالانکہ لیز ایگریمنٹ کے مطابق اس کے 49 سال باقی تھے.
اس طرح گلگت ایجنسی میں تعینات آخری برٹش پولیٹکل ایجینٹ کرنل بیکن واپس چلا گیا اور اس کی جگہ مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم پر ریاست جموں و کشمیر کے نمایندے کے طور پر بیرگیڈیر گھنسارا سنگھ نے بطور گورنر گلگت بلتستان چارج سنبھال لیا.
اگست 1947 سے لیکر جنوری 1948 تک جو واقعات گلگت میں رونما ہوۓ اس کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا لیکن جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق میجر براؤن کا کردار متنازعہ رہا ہے. ایک مکتبہ فکر نے اسے ایک سازشی اور غدار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سرکاری سطح پر ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور اس عمل میں میجر براؤن کی بیوہ مارگریٹ نے کلیدی کردار ادا کیا.
جس وقت انقلاب گلگت رونما ہورہا تھا اس وقت ولیم براؤن کی عمر صرف 24 سال تھی انہوں نے اپنا پچسواں جنم دن گلگت میں منایا تھا اور انقلاب گلگت کے وقت وہ گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے. انقلاب گلگت کے بعد گلگت سے واپسی پر جولائی 1948ء کو ولیم براؤن نے فرنٹیر کانسٹبلیری میں ملازمت اختیار کیں جو اس وقت کے صوبہ سرحد(پختونخواء) میں نارتھ وزیرستان پولیس فورس کہلاتی تھی. 1948ء سے لے کر 1958ء تک براون پاکستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے. فرنٹیر کانسٹبلری چھوڑنے کے بعد انہوں نے کامرس کے شعبے میں شمولیت اختیار کیں. اسی دوران 1957ء میں ان کی ملاقات Margaret Rosemary Cookslay سے ہوئی جو اس وقت کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر تھی اور 1958 میں انہوں نے شادی کی. اسی دوران ولیم بروان کو Himalayan Society میں حکومت پاکستان کا سیکریڑی مقرر کیا گیا. 1959ء میں براؤن اپنے خاندان سمیت واپس برطانیہ چلے گئے اور 1960ء میں انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک Livery Yard اور گھڑ سواری کے اسکول کھول دیا اور وہاں اگلے 24 سالوں تک اسے گھوڑوں کے استاد کے طور پر پہچانا جاتا تھا.
برطانیہ واپس جانے سے لے کر اپنی وفات تک انہوں نے گلگت کے بارے میں کوئی کتاب شائع نہیں کروائی بلکہ ان کی وفات کے چودہ سال بعد تک بھی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بارے میں ان کا کردار دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا. پھر ان کی بیوہ مارگریٹ نے ان کے کردار کو دنیا کے سامنے لایا.
کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے.
اگرچہ میں سب مردوں کے بارے میں یہ بات وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن یقین کامل کے ساتھ یہ مانتا ہوں کہ برطانیہ کےایک چھوٹے سے گاوں میں گھوڑوں کے استاد کے طور پر پہچانے جانے والے میجر ولیم براؤن کے کردار کو ان کی بیوہ نے کمال ہوشیاری سے پاکستانی حکام سے مل ملاپ کر کے ازسر نو ایک نئے بیانیہ کے ساتھ دنیا کے سامنے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک اہم ہیرو کے طور پر پیش کیا اور بدلے میں حکومت پاکستان نے گلگت سکاؤٹس کے سابق انگریز کمانڈنٹ ولیم براؤن کو ستارہ پاکستان سے نوازا.
کرنل حسن خان اپنی کتاب "شمشیر سے زنجیر تک” میں لکھتے ہیں کہ "یکم نومبر 1947ء کو راقم نے گلگت میں جب آفیسر میس میں اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالا تو وہاں میجر براؤن بھی تھا. شاہی گراؤنڈ کے جھمیلے سے نکل کر اسکاوٹ لائین میں آۓ تو کرنل کمانڈنگ کے بنگلے میں سب آفسر اور گلگت کے معززین جمع تھے انہیں جیسے چپکے سے انہیں دعوت دے کر بلایا گیا تھا. یہی حال پریڈ گراؤنڈ کا بھی تھا جو کہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. مجھے کہا گیا کہ مجلس مشاورت یا انقلابی کنونشن کی ہنگامی میٹنگ تھی جو عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے بلائی گئی تھی. کمرے میں داخل ہوا تو جملہ حاضرین کے درمیان میجر براؤن اور کیپٹین متھیسن بھی مدعو تھے. میرے رفیق اس کارخیر میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے اور اپنے مہرے آگے لانا چاہتے تھے. انگریز آفیسرز اس میٹنگ میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور باقی ان کے ہاں میں ہاں ملاۓ جا رہے تھے. راقم انقلاب کے سربراہ یا مارشل لاء ایڈمنسڑیڑ مقرر ہوۓ. تعجب ہے کہ خود اپنے کاندھوں پر یہ بوجھ ڈالتے وقت کسی نے مجھے سے تعرض نہیں کیا. اس مجلس مشاورت کا دل رکھنا میرا فرض ہو گیا تھا اس لئے میٹنگ کی برخاستگی کے فوراً بعد انگریزوں کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور انہیں اسکاوٹ سرداروں سے گرفتار کروادیا جو انہیں ساتھ لئے آۓ تھے اور میرے مشیر مقرر کروارہے تھے .”
میجر براون کے بارے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلٰی امان اللہ خان مرحوم اپنی کتاب "جہد مسلسل” کے صفحہ نمبر 286 میں لکھتے ہیں کہ "میرے قیام برطانیہ کے اواخر میں اپنے ایک عزیز حشمت اللہ خان جن کو گلگت کے تاریخی واقعات لکھنے کا شوق ہے کے کہنے پر میجر براؤن سے گلگت کے انقلاب سے متعلق دستاویزات مانگنے کے لیے فون کیا تو میجر براؤن نے کچھ تذبذب کے بعد مطلوبہ دستاویزات دینے کی حامی بھری. مگر ان دنوں مجھے اپنے ساتھی مقبول بٹ شہید کی تہار جیل میں پھانسی کا دکھ تھا. (مقبول بٹ ایک کشمیری آزادی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ کا بانی تھا جن کو ہندوستان کی حکومت نے نئی دہلی کے تہار جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا).اسی دوران دیگر کاموں کی وجہ سے مجھے فرصت نہیں ملی کہ میں اسکاٹ لینڈ جا کر وہ دستاویزات حاصل کرسکوں. بعد میں فرصت ملتے ہی میں نے میجر براؤن کا پتہ کیا تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ میجرصاحب کا حال ہی میں پانچ دسمبر 1984ء میں انتقال ہوا ہے.
میں نے مطلوبہ دستاویزات کے بارے میں پوچھا تو مسز براؤن نے کہا کہ” کچھ دستاویزات تو رائٹرز نیوز ایجنسی والے لےکر گئے ہیں اور باقی دستاویزات پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مسٹر قطب دین عزیز لے گئے ہیں اور اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.”
میجر بروان کی کتاب The Gilgit Rebellion ان کی وفات کے 14 سال بعد 1998ء میں شائع کی گئی. "بغاوت گلگت” نامی اس کتاب کے صحفہ 15 میں صاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہےکہ ولیم براؤن کی گلگت سے واپسی یعنی کم از کم 1948ء تک اپنے پاس ایک ڈائری رکھتے تھے جو کھو گئی (بظاہر چوری ہوگئی تھی). انہوں نے اسے بیانیہ انداز میں لکھا تھا اور ان کا ارادہ اسے چھپوانے کا تھا. لیکن آخر میں ارادہ ترک کیا اور بعد میں اس کی اصل ٹائپ شدہ مسودہ بھی کھو گئی تھی. مگر کاربن کاپی سے کام چلایا گیا جس کے مستند ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے. اس لئے میجر براؤن کی یادداشت کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ "اشاعت کے لئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی اور ہم خصوصی طور پر ٕگروپ کپٹین شاہ خان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان میں1947-1948 کے واقعات سے متعلق اس یادداشت میں شامل مواد کی تصدیق کرنے میں مدد کی.”
میجر براؤن کی یادداشت کی تدوین اور تصدیق کے متعلق یہ کہا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہر وہ سچائی جو ظاہر نہیں کی جاتی ہے وہ زہریلی ہو جاتی ہے. نوآبادکاروں کے بیانیے پر لکھی گئی یہ کتاب اس کی ایک عمدہ مثال ہے. سچ یہ ہے کہ انقلاب گلگت کے متعلق ولیم براؤن کے وفات کے چودہ سال بعد اس کے دوستوں کے وسیع حلقے نے اس کی یادداشت ترتیب دیا اور بغاوت گلگت نامی اس کتاب کے ذریعے اس کے کردار کو گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ سے بڑھا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جس نے تاریخ کا دھارا تبدیل کیا. میجر براؤن کی قبر کے کتبے میں ہیڈ بیج آف گلگت سکاؤٹس اور لیجینڈ آف دتہ خیل 31/10/47 کندہ کیا گیا.اس کتاب کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ اگر براؤن نہ ہوتا تو گلگت بلتستان ہندوستان کے ہاتھ چلا جاتا.”
اس طرح نوآبادیاتی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوۓ جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کا نام دیا گیا. اس کتاب میں میجر براؤن "لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی کی نہ صرف دفاع کرتا ہے بلکہ اسے وقت کی ضرورت بھی قرار دیتا ہے. دنیا کی دیگر نوآبادیات کی طرح تاریخ گلگت بلتستان بھی نوآبادیاتی بیانیہ پر لکھوائی گئی ہے اور بعد ازاں سرکاری دانشوروں نے بنا تحقیق کے اسی بیانیہ کو حرفِ آخر مان کر آگے بڑھایا اور یوں ہماری قوم کو نہ صرف اپنی اصل اور حقیقی تاریخ سے نابلد رکھا گیا بلکہ ہمارے اس خوبصورت علاقے میں تاج برطانیہ کے دور سے ہی ایک نوآبادیاتی نظام کے تحت بیرونی قبضہ مضبوط کرنے کے لئے عوام میں "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی کے تحت علاقائی، لسانی، مذہبی اور مسلکی تعصبات اور نفرت کو پروان چڑھایا گیا. اس پالیسی کی واضح مثال میجر براؤن کی بغاوت گلگت نامی کتاب ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے بارے میں غلط فہمیاں اور نفاق کا بیج جان بوجھ کر بویا گیا ہے تاکہ اس علاقے پر آسانی سے حکومت کی جا سکے.
بقول فرانز فینن "نوآبادیات میں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی تاریخ, ثقافت اور روایات کو مٹا دیا جاۓ.”
نوآبادیاتی دنیا میں قاری کو گمراہ کرنے کے لیے باقاعدہ اس طرح کی کتابیں لکھوائی جاتی ہیں اور جدوجہد آزادی کی تحریک میں عوامی کردار کو جان بوجھ کر نظرانداز جبکہ ہیروازم کو فروغ دیا جاتا ہے.
ایف ایم خان اپنی کتاب "تاریخ گلگت-بلتستان و چترال” کے صفہ نمبر 68 میں لکھتے ہیں کہ "جنگ آزادی گلگت- بلتستان میں میجر براون کی واحد کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے انقلاب گلگت کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کو ایک کامیاب سازش کے ڈریعے ختم کرکے گلگت-بلتستان کو صوبہ سرحد کے ایک نائب تحصیلدار سردار محمد عالم کے حوالہ کرکے مطلق العنان / آمرانہ حکومت قائم کیا اور اس طرح گلگت-بلستان میں دوبارہ نوآبادیاتی نظام قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور گلگت-بلتستان کے عوام کو ایک نوآبادیاتی طرز کی نظام حکومت کا غلام بنایا .
بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت-بلتستان چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی قوانین کے اوپر لیکچر دیتے ہیں