انسانی حقوق کی تنظیم نے عورت اور اس کی بچی کو ظالم شوہر کے ظلم سے نجات دلایا. ملزم جائداد ہتھیانے کی غرض سے بیوی اور بچی پر مظالم کرتا تھا۔ کجو میں خاتون کو 75 سالہ بوڑھے شوہر سے آزاد کرایا۔
گل حماد فاروقی
چترال
پاکستان انٹر نیشنل ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن کے کارکنوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیزاسٹر اور انسانی حقوق چترال عبد الولی خان کے سربراہی میں ایک معذور خاتون اور اس کی چار سالہ بچی کو شوہر کے مظالم سے نجات دلایا۔
تنظیم کے مطابق گہریت چترال کی رہایشی گوجر قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک معذور لڑکی کے نام پر والدین نے زمین منتقل کیا تھا اس زمین کو ہتھانے کیلئے اسی قبیلے کے شخص نے اس سے شادی کرلی۔جس پر وہ مظالم کرتے رہے اور اس کی چار سالہ بیٹی کی بھی مارنے کی کوشش کیں۔
شوہر کے مظالم سے لڑکی ذہنی طور پر معذور ہوگیا اس پر اس شخص نے اس عورت کو طلاق دی اور اس کے چار سالہ بچی کو قبضے میں لے لیا۔ طلاق کے بعد اس عورت کو شوہر نے کچھ نہیں دیا۔
عالم خان نے بام جہان کو بتایا کہ ان کی تنظیم کو شکایت ملی تھی کہ ضلع دیر سے ہمیں شکایت ملی کہ ایک چار سالہ بچی پراس کا باپ اور سوتیلی ماں تشدد کررہے ہیں. وہ بچی کو بھوکا پیاسا رکھ کر اس کو مارنے کی کوشش کررہے تھے. ہم نے فوری طور پر اس پر ایکشن لیا اور ان پر مقدمہ درج کرکے مقامی عدالت سے رجوع کیا جس پر فاضل عدالت نے اس بچی کو ماں کے حوالہ کرنے کا حکم صادر کیا۔
سوشل ویلفئیر آفیسر نصرت جبین اور دارالامان کی پراجیکٹ منیجر آسیہ اجمل، PIHRO کے صوبائی کو آرڈینیٹر معراج محمد اور ڈسٹرکٹ آفیسر عالم خان نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیزاسٹر اور انسانی حقوق عبد الولی خان کے نگرانی میں خاتون اور بچی کو ان کے آبائی گھر گہریت لائے اور ان کی داد رسی کرلی۔
اس موقع پر انہوں نے یقین دلایا کہ جب دار الامان مکمل ہوجائے گا تو خاتون اور اس کی بچی کو وہاں منتقل کریں گے۔ اس خاتون کے آبائی زمین پر اس کے سابقہ شوہر نے مکان بنایا تھا مگر یہ مکان اب اس کے بھائی کے قبضے میں ہے جہاں یہ خاتون اپنی بچی سمیت بھائی کے بیوی اور بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے. تاہم اس مکان کو بھی اس کیلئے اور اس کی بچی کیلئے قانونی طور پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں یہ در در کی ٹھوکریں نہ کھائے۔
متاثرہ لڑکی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا سابقہ شوہر ان پر ظلم کرتا رہا اور ان کو مارا پیٹا اور ہڈی بھی توڑ ڈالی. انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ ان سے بھیک بھی منگواتا تھا.
وہ ان کے ساتھ ان کی بیٹی کو مارنے کی کوشش کیں تاکہ ان کی آبائی جائداد پر قبضہ جمائے۔
انسانئ حقوق کی تنظیم نے ایک اور کیس میں خاتوں کی بوڑھے ادمی سے شادی رکوا دی
PIHRO دیر پائین کےڈسٹرکٹ آفیسر عالم خان یوسفزئی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کو شکایت ملی تھی کہ چترال کے علاقے کجو سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون کا صوابی میں اسی سالہ شخص ولایت شاہ سے شادی کرایا گیا ہے.
تفصیلات کے مطابق لڑ کی کو دلالوں نے 272،000 ر وپے کے عوض عمر رسیدہ شخص کےحوالے کیا گیا تھا. تنظیم نے جب تحقیقات کرلی تو معلوم ہوا کہ یہ شادی ملکی قوانین، شریعت اور مقامی رسم کے سراسر خلاف ورزی کرکے کی گئی تھی. لڑکی کو شوہر کے بارے میں لاعلم رکھا گیا تھا اور ان کو دیکھے بغیر اس سے شادی کرائی گئی تھی.
تنظیم نے رقم واپس لئے لڑکی کو حصہ دینے کے بعد بوڑھے شخص کو واپس کیا.
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ملزموں کے خلاف دھوکہ دہی انسانی اسمگلنگ کے دفعات کے تحت FIR بھی کٹ سکتا تھا مگر تنظیم نے افہام و تفہیم سے یہ معاملہ حل کرایا. کیونکہ لڑکی کا اس سے پہلے ضلع کرک میں شادی کرائی گئی تھی جس سے اس کے دو بچے بھی تھے. مگر وہاں سے طلاق ہونے پر ایک بار پھر اس کی عمر رسیدہ شخص سے شادی کرائی گئی۔ چونکہ لڑکی اس ضعیف المعر شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی کیونکہ اس نے اسے دیکھا ہی نہیں تھا. اس پر تنظیم نے باہمی افہام و تفہیم سے دونوں میں علیحدگی کرائی اور وہ رقم دونوں میں برابر تقسیم کیا۔
انہوں نے لڑکی کے رشتہ داروں کو متنبہ کیا کہ آئندہ وہ اس لڑکی کو اس کی مرضی کے بغیر شادی نہ کرائے۔ انہوں نے چترال کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ دلالوں سے بچیں اور اپنی بچیوں کا دوسرے اضلاع میں بغیر تحقیق کے شادیاں نہ کرائے تاکہ ان کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
اس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے بہترین کارکردی پر اے ڈی سی عبد الولی خان، نصرت جبین، عاصیہ اجمل، تھانہ کوغذی کے ایس ایچ او ولی خان کو تعریفی اسناد بھی دئے۔ مقامی لوگوں نے اے ڈی سی عبد الولی خان، نصرت جبین، معراج محمد، عالم خان، عاصیہ اجمل اور ان تنظیمان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ ان کی کوششوں سے یہ مسئلہ عدالت کے بغیر باہمی افہام و تفہم سے حل کرایا گیا اور حق بھی حقدار کو دلوایا گیا