Baam-e-Jahan

ماحولیاتی انصاف یا استحصال

علی احمد جان

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں گلگت میں نو منتخب کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی حدود میں دو نئے نیشنل پارک –ہمالیہ نیشنل پارک اور نانگا پربت نیشنل پارک — کا اعلان کیا ۔

دونوں پارکوں کا رقبہ 3600 مربع کلومیٹر جو گلگت بلتستان کے زمینی رقبے کا 5٪ حصہ ہے، اور بہت زیادہ اونچائی پر رہنے والے جنگلی حیاتیاتی تنوع کے ساتھ ساتھ قیمتی پودوں کے منفرد ماحولیاتی علاقوں پر مشتمل ہے جس میں برفانی چیتے ، ہمالیہ بھورے رنگ کا ریچھ ، لداخ اڑیال ، آئبیکس ، مارخور اور بلیو شپ شامل ہیں۔

پورے پاکستان سمیت گکگت بلتستان میں نیشنل پارکوں کی تعداد 45 ہوگئی ہے۔

نیشنل پارک اس محفوظ علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں مقامی لوگوں کو کسی قسم کی معاشی و اقتصادی سرگرمی یعنی گھاس چرائی، لکڑی کی کٹائی ، آباد کاری یا کاشتکاری کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہر ملک کو اپنے کل رقبے کا ایک حصہ (چار فیصد) محفوظ قرار دینا ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان میں پہلے سے نصف درجن سے زیادہ نیشنل پارک موجود ہیں، جو کسی اور صوبے سے تناسب کے لحاظ سے زیادہ ہیں، جبکہ پنجاب میں اتنے محفوظ علاقے ہیں ہی نہیں ۔ اسلام آباد کی حدود میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے حدود اور تقدس کی اس قدر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں کہ اب اس کو نیشنل پارک یا محفوظ علاقہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

کسی ملک کا اپنے کم ترقیاتی صوبوں اور انتظامی اکائیوں میں نیشنل پارک کے نام پر مقامی لوگوں کو ان علاقوں میں معاشی سرگرمیوں سے دور رکھنا اپنی ذمہ داریوں سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کےمترادف ہے۔

امریکہ جس طرح ماحولیاتی تحفظ کی ذمہ داری دوسرے ممالک پر ڈالتا ہے اسی طرح پنجاب نے پاکستان میں یہ ذمہ داری چھوٹے اور کم ترقی یافتہ صوبوں کو منتقل کیا ہے۔ گلگت بلتستان، بلوچستان، سندھ، چترال (خیبر پختونخواء )اور آزاد کشمیر میں محفوظ علاقوں کی تعداد زیادہ ہے جہاں مقامی لوگوں کو معاشی و اقتصادی سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

ہر صوبہ جس طرح وسائل میں حصہ دار ہوتا ہے اسی طرح ماحولیاتی نقصان کے ازالے کی ذمہ داری بھی یکساں ہونی چاہیئے جو اس کی آبادی کے تناسب سے ہو۔ اگر کسی کم ترقی یافتہ صوبہ یا خطہ میں محفوظ علاقے بنا دئے جائیں تو مقامی لوگوں کے معاشی نقصان کے ازالہ کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیئے جو ترقی یافتہ صوبوں کی ذمہ داری ہو۔

اگر پاکستان کے کل رقبے کا 4 فیصد علاقہ محفوظ بنانے کے لئے گلگت بلتستان کی1 فیصد آبادی کا معاشی و اقتصادی نقصان کیا جاتا ہے تو یہ انصاف نہیں۔ اگر پنجاب اور وفاق اپنے صنعتی و زرعی ترقی کے ماحولیاتی نقصان کا ازالہ گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں کو نیشنل پارک قرار دے کر کرتا ہے تو لوگوں کی معاشی ترقی کی ذمہ داری بھی اٹھالے۔ اسی کو ‘ماحولیاتی خدمات کے عوض ادائیگی’ کہا جاتا ہے جو معاشی ترقی اور ماحولیاتی نقصان کے درمیان ٹریڈ آف بن جاتا ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے