تحریر. اشفاق احمد ایڈووکیٹ
ورجینیا ڈیکلیریشن آف رایئٹس 1776 دنیا میں بنیادی حقوق کا پہلا جمہوری دستوریت کی دستاویز ہے،جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام بنی نوع انسان پیدائیشی طور پر برابر ہیں۔ جنہیں ان کے خالق نے کچھ مخصوص حقوق سے نوازا ہے جن میں زندہ رہنے کا حق ،آزادی کا حق اور خوشی کی تلاش کا حق شامل ہے جنہیں یقینی بنانے کے لیے لوگوں نے خود حکومتیں قائم کیں اور اپنی منشاء سے اپنے اوپر انصاف کے مطابق حکومت کرنے کا حق دیا۔.
امریکن بل آف رائیٹس دس ترامیم پر مشتمل ہے جو بنیادی حقوق سے متعلق ہیں ۔اس کے بعد 1789 میں فرانس میں انسانی حقوق کا اعلان نامہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح جرمنی میں 1848 میں انقلاب کے بعد شہریوں کے بنیادی حقوق کا اعلان کیا گیا.
اٹھارویں صدی کے دوسرے حصے میں برطانیہ کے عوام میں نیچرل رائیٹس کے بابت بات چیت شروع ہوئی جس سے امریکہ اور فرانس کے انقلابی دور سے تشبیہ دی جاتی ہے۔انیسویں صدی کا دوسرا حصہ اور بیسویں صدی کے شروعات میں دنیا کے بیشتر ریاستوں نے اپنے دساتیر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا ان تمام ممالک کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر وہ بنیادی حقوق کی آئین میں ضمانت نہیں دیتی ہیں تو اسی صورت میں شہریوں کے حقوق کو یقینی بنانا ممکن نہیں نہ ہی بنیادی حقوق کی عدم موجودگی میں انسانی شخصیت کی تعمیر اور تکمیل ہو سکتی ہے.
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے سے بنیادی حقوق کا مطالبہ شہروں سے شروع ہوا یہ قرون وسطی کا زمانہ تھا جب یورپ میں کاروبار اور صنعت نے ترقی پائی؛ علم اور ہنر کی اہمیت بڑھتی گئی اور لوگوں نے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کیا؛ تعلیم اور شعور کے ساتھ بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد شروع ہوتی ہے.
جنگ عظیم اول سے قبل ریاستیں اپنے حدود کے اندر جو مرضی میں آتا اپنے شہریوں کے ساتھ سلوک کرتے تھے. عالمی برادری زیادہ پوچھ گچھ نہیں کرتے تھے. چونکہ ریاست کی اقتداراعلٰی تقریبا مقدس سمجھی جاتی تھی۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا میں پرامن ترقی اور خوشحالی کے قیام کے لیے انسانی حقوق کو یقینی بنانا لازمی قرار دیا گیا۔ لیگ آف نیشنز اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے بنیادی حقوق کے حوالے سے قانون سازی پر زور دیا ۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو تسلیم کیا گیا مگر اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی حقوق کی بابت سات ریفرنسز بھی دئیے گئے اور بین الاقوامی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے لیے قانون سازی شروع ہوئی.
اس کی ایک اہم وجہ جنگ کے دوران رونما ہونے والے بربریت کا تجربہ اور جنگ کی ہولناکی تھی جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔.
دس دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاس ہونے والےانسانی حقوق کا عالمی اعلان نامہ کے علاوہ انٹرنیشنل کاویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور میثاق برائے اکنامک ، سوشل اینڈ کلچرل رائٹس مل کر انڑنشنل بل آف ہومین رائٹس کی تشکیل کرتے ہیں ۔جن کے نتیجے میں ایک قانونی معاہدے کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کیا گیا، جن میں سول حقوق ، سیاسی حقوق،اکنامک حقوق ،سوشل اور کلچرل حقوق بھی شامل ہیں.
آج دنیا میں نو اہم بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ اور فراہمی کےلیے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے اکثریتی ممالک نے ان معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عدم فراہمی پر جوابدہ ہیں.
حکومت پاکستان نے 23 جون 2010 کو International Covenant on Civil and Political Rights کی توثیق کی ہے جبکہ سترہ اپریل 2008 میں
International Covenant on Economic, Social, and Cultural Rights کی توثیق کی ہے؛ اسطرح 12 مارچ 1996 کو Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination against Women پر دستخط کیا ہے جبکہ21 دسمبر 1966 کو International Convention on the Elimination of All Forms of Racial Discrimination کی توثیق کی ہے ۔ان کے علاوہ 20 نومبر 1990 میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے Convention on rights of the child کی بھی توثیق کی ہے. جبکہ 23 جون 2010 کو Convention against Torture and other Cruel, Inhuman and Degrading Treatment or Punishment کی بھی توثیق کی ہے اور اس کے علاوہ 5 جولائی 2011 کو Convention on the Rights of Persons With Disabilities کی بھی توثیق کی ہے.
اس کے علاوہ پاکستان نے بہت سارے بین الاقوامی دستاویزات پر دستخط کئے ہیں جو معاشرے کے vulnerable groups کو تحفظ مہیا کرتے ہیں جن میں خواتین , بچے، اقلیتیں شامل ہیں. لیکن ان تمام بین الاقوامی دستاویزات اور معاہدوں کی توثیق کرنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کو اب تک بنیادی انسانی حقوق مہیا نہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق کا علم بھی نہیں ہے نہ ہی ان کو ریاستی ذمہ داریوں اور شہریوں کےحقوق و فرائض سے دلچسپی ہے.
مہذب دنیا میں قومی ریاستیں ایک آئین کے تحت اپنے شہریوں کو کچھ اہم حقوق مہیا کرتی ہیں جنھیں بنیادی انسانی حقوق کہا جاتا ہے۔
ہر ریاست ان حقوق کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے ۔ بقول لاسکی : ‘کسی بھی ملک کے آئین سے ان حقوق کا پتہ چلتا ہے کیونکہ آئین بنیادی طور پر انسانی حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست انسانوں کے حقوق تخلیق نہیں کرتی ہے بلکہ حقوق کو تسلیم کرتی ہے’۔
مشہور فلسفی ژاں ژاک روسو کا ماننا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جدھر دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے اور ان الفاظ کے ساتھ روسو اپنی کتاب "معاہدہ عمرانی ” شروع کرتا ہے.
روسو نے آزادی ،مساوات ،حکومت جمہوریہ کو انسان کا حق ثابت کیا ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ معاہدہ عمرانی کی رو سے تمام شہری برابر ہیں اور
قدرتاً ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے اس لیے یہ کہنا کہ غلام کی اولاد غلام ہوتی ہے گویا اس کے انسان ہونے کے وجود سے انکار کرنا ہے.
دنیا کے جمہوری ممالک میں ریاست کے تمام اہم ستون کا کردار اور اختیارات آئین میں طے ہوتا ہے۔ جس کے تحت مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ اپنے اپنے امور سر انجام دیتے ہیں. مگر گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں ریاست کے ان اہم تین ستونوں کے اختیارات کی تقسم اور چیک اینڈ بیلنس کا تصور ابھی تک قابل اطلاق نہیں ہے ۔چونکہ اس اہم اسٹرٹیجک خطہ کے معاملات کسی آئین کے تحت نہیں بلکہ ایک صدارتی حکم نامہ کے تحت چلائے جارہے ہیں. جس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا ممکن نہیں.
اس لیے گلگت بلتستان کی آئینی حثیت کے تعین اور اس خطے میں صدیوں سے آباد بیس لاکھ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے دائر مشہور مقدمہ الجاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان نامی کیس کا فیصلہ سناتے ہوۓ 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تاریخی فیصلہ میں لکھا ہے کہ "یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ کن بنیادوں پر شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے انکار کیا جاتا ہےجن حقوق کی ضمانت آیئن دیتا ہے”۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں لکھا کہ بنیادی حقوق کی دو اقسام ہیں : پہلی قسم کے حقوق میں شخصی حقوق شامل ہیں.
آئین پاکستان کے تحت آرٹیکل نمبر ٩،١٠،١١،١٢،١٣،١۴،٢١،٢٢،٢۴ شہری اور غیر شہری کے درمیان تفریق نہیں کرتے ہیں بلکہ شخص کی بات کرتے ہیں؛ جبکہ حقوق کی دوسری قسم صرف ملک کے شہریوں سے متعلق ہیں جن میں آئین کے آرٹیکل نمبر ١۵ تا ٢٠ اور ٢٣، ٢۵ شامل ہیں.
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کے پیرگراف نمبر چودہ میں لکھا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ناردرن ایریاز میں ادارے بحثیت De Facto Executive, De Facto Legislature De Facto Judiciary کام کرتے ہیں اس لیے ان اداروں کے Acts قانونآ درست ہیں؛ چونکہ وفاق پاکستان نے اس کیس میں دلیل یہ دی کہ ان علاقوں یعنی گلگت بلتستان پرDoctrine Of De Facto Administration لاگو ہوتا ہے۔اور پاکستان نے ناردن ایریاز پر گزشتہ پچاس سالوں سے موثر طریقے سے کنٹرول جاری رکھا ہے اور بحثیت فرمانروا کام کر رہا ہے۔اور وفاق نے یہ بھی کہا کہ اس حیثیت کو بین الاقوامی برادری خاص کر اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے.
سپریم کورٹ آف پاکستان نے لکھا کہ چونکہ پاکستان کے زیادہ تر قوانین بشمول شہریت کا قانون ناردرن ایریاز (گلگت بلتستان)میں لاگو ہیں اس لیے وہاں کے لوگ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح بنیادی حقوق مانگ سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ ٹیکس ادا کرنے اور دیگر محصولات ادا کرنے کے پابند ہیں.
سپریم کورٹ نے لکھا کہ ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حقوق انسانی کا عالمی اعلامیہ جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیا ہے کے تحت بھی لوگوں کی نسل، حیثیت اور ماخذ کے بنا ہی کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ جس کے بارے میں آرٹیکل ا تا ١٠ اور ١٣ ، ١۵ اور ٢١ کے بابت یونیورسل ڈیکلریشن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں درج بنیادی حقوق یونیورسل ڈیکلیریشن میں درج مندرجہ بالا حقوق کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ انٹرنیشنل کنونشن آف سول اینڈ پولیٹیکل رایئٹس، یورپین کنونشن اور آمریکی کنونشن برائے انسانی حقوق کے مطابق ہیں.
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کسی ملک میں بنیادی حقوق کو اس وقت معطل کیا جاتا ہے جب بیرونی جارحیت اور بیرونی خطرے کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کی گئی ہو، یا قومی جنگ میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے لوٹ مار اور غلامی سے بچایا جاسکے، یہاں تک کہ اس کے حصول کے لئے افراد کی آزادیوں اور شہریوں کے دیگر حقوق کو قربان کیا جاسکتا ہے. ایسی صورتحال کے متعلق ایک لاطینی محاورہ ہے when there is an armed conflict, the law remain silent. مگر شمالی علاقہ جات میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے لہذا اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوۓ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رایٹس کے مندرجہ بالا آرٹیکلز اور موجودہ مقدمے میں بہت مطابقت ہے.
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی اور تحفظ میں بذریعہ استصواب رائے ہونی ہے اور اقوام متحدہ نے ہی یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومین رایئٹس کی سرپرستی کی ہے، اس لیے یہ بات طے ہے کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں۔سپریم کورٹ کا یہ ماننا ہے کہ انصاف تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل ہے اور یہ حق ایک آزاد عدلیہ کی غیرموجودگی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا ہے.
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2A میں بیان کیا گیا ہے کہ ریاست عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اختیارات اور اتھارٹی کو استعمال کرتی ہے، جہاں جمہوریت کے بنیادی اہم ترین رہنما اصول آزادی،مساوات، برابری، صبر، عدل اور سماجی انصاف، جنھیں اسلام نے واضح طور پر بیان کیا ہے، پر مکمل طور پر عمل کیا جاۓ. آئین پاکستان کے ارٹیکل 2A اور 17 کے تحت شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنے علاقے پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں اور ایک آزاد عدلیہ کے زریعے اپنے بنیادی حقوق کو لاگو کرنے کے حقدار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے 1999 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس تاریخی فیصلہ کے باوجود بھی تاحال گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب نمایندوں کو اپنے شہریوں کے لیۓ آئین سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے. تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پر لاگو کیا گیا آرڈر 2009 ہو یا آرڈر 2018 اس کے بنانے میں گلگت بلتستان کے منتخب نمایندوں کی کوئی منشا اور راۓ شامل نہیں اور نہ ہی ہمارے منتخب نمایندوں کو آرڈر 2018 میں ترمیم کا اختیار ہے نہ ہی گلگت بلتستان کے سپیریم اپیلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں اس کو چیلنچ کیا جاسکتا ہے.
گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ کے پاس جوڈیشل ریویو کا اختیار بھی نہیں ہے. جبکہ اعلی عدلیہ میں ججزز کی تقرری بھی جوڈیشل کمیشن کی بجاۓ ایگزیکٹو اتھارٹی کے تحت وزیراعظم کرتا ہے. حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ آزاد عدلیہ غیر جانبدار، منصفانہ اور Adjudicatory framwork انصاف اور عدل پر مبنی ہو. یعنی ایک جوڈیشل درجہ بندی موجود ہو.
ایسی عدالتوں اور ٹرائبیونلز کو جنھیں افراد اور ایگزیکٹیو کے ذریعے چلائی جاتی ہوں مشکل سے آزاد کہا جاسکتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم ازخود گلگت بلتستان آرڈر میں ترمیم کرنے کا بھی مجاز ہے جی بی آرڈر 2018 کے تحت گلگت بلتستان کونسل کے چیرمین کی حثیت سے وزیراعظم پاکستان اتنے وسیع اختیارات کے مالک ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ کسی جمہوری ملک کےوزیراعظم کے بجاۓ قرون وسطی کا بادشاہ ہے,حالانکہ دنیا میں بیشتر ممالک میں بادشاہت کا نظام ختم ہوۓ ایک زمانہ گزر چکا ہے.
لہذا اب وقت کا تقاضا ہے گلگت بلتستان کے عوام کی ستر سالہ محرمیوں کا ازالہ کرتے ہوۓ یا تو پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح برابر کے حقوق دیئے جایئں یا آزاد کشمیر طرز کا ڈھانچہ دیا جاۓ نہ کہ عبوری صوبہ کی کہانیوں سے عوام کو ٹرخایا جاۓ.
25 دسمبر 2020کو ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ایم ضیاالدین نے اپنے ایک کالم میں عبوری صوبے کے بارے میں درست طور پر لکھتے ہیں کہ And mind you, there is no such thing as “provisional provincial status”. Those soliciting the political support of G-B’s people by selling them such dubious notions are only indulging in deception.
اس صورتحال میں گلگت بلتستان اسمبلی کے نومنتخب نمائیندے خواہ وہ حکومتی جماعت سے ہوں یا حزب اختلاف کے جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے وفاق پاکستان سے فوری طور پر مطالبہ کریں اور گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری کے لیے اپوزیشن جماعتں مل کر فوری طور پر گلگت بلتستان اسمبلی میں بل پیش کریں اور مطالبہ کریں کہ دفاع ,کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ دیگر تمام معاملات کو گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کردیا جاۓ اور آزاد کشمیر طرز پر گلگت بلتستان میں بھی باشندہ ریاست قانون بحال کیا جاۓ اور ایکٹ 1974 کے طرز پر گلگت بلتستان کو ایک آئین دیا جاۓ نہ کہ عبوری صوبے کے نام پر ایک اور آرڈر جاری کریں. اس لیے گلگت بلتستان اسمبلی کے نومنتخب ممبران کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو یہ بتلایئں کہ گلگت بلتستان کے لۓ جو بھی نیا قانون بنایا جا رہا ہے اس کے بنانے میں گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کا کیا رول ہے؟
اور اگر نئے آنے والا قانون گلگت بلتستان اسمبلی سے پاس نہیں ہوتا ہے تو اسی صورت میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبے بنانے کا راگ الپنے والے سیاستدانوں اور خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو لازمی طور پر مشہور ادیب سعادت حسین منٹو کا تاریخی ناول نیا قانون غور پر پڑھنا چاہئے اور قوم کو False consciousness سے نکل کر حقیقت سے کا سامنا کرنا چاہئے اس طرح شاید ہماری قومی محرمیوں کا مداوا بروقت ہوسکے ورنا تاریخ اپنے اپ کو ایک بار پھر دھراۓ گی اور ہم ایک بار پھر ہم 16 نومبر 1947 کی طرح ٹیلی گرام دیکر دعوی کرتے رہ جائیں گے کہ بھائی ہم نے تو الحاق کیا تھا مگر ستر سال تک ٹیلی گرام کا جواب کیوں نہیں آیا؟
حالانکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی ٹیلی گرام براۓ الحاق نامہ کے جواب میں پہلے تو ایف سی ار کا کالا قانون آیا اور اس کے بعد آڑرر پر آرڑرز کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے اور لگتا ہے عبوری صوبہ کے نام پر ایک نیا ارڑر 2020 انقریب آنے والا ہے جس کے لیے راۓ عامہ ہموار کرنے کے لیے کچھ سرکاری دانشور آۓ روز مختلف اخبارات میں گلگت بلتستان سے متعلق تاریخی اور قانونی حقایق مسخ کر کے آرٹیکلز لکھ رہے ہیں اور تاریخ گلگت بلتستان کا خون بہا رہے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے.
مگر ان تمام تر تلخ حقائق کے باوجود اس سال انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر گلگت بلتستان کے تمام سیاسی کارکنوں کے لئے خوشی کا مقام یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ہنرہ سے تعلق رکھنے والے مشہور ترقی پسند سیاسی رہنما بابا جان سیمت دیگرتمام سیاسی اسیران کو حکومت نے ان کی سزا معطل کرکے رہا کردیا ہے جوکہ ایک احسن اقدام ہے.
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت-بلتستان چیف کورٹ کے وکیل ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین لااقوامی قوانین پڑھاتے ہیں.