Baam-e-Jahan

بلتستان کے ساتھ امتیازی سلوک بند کیا جائے: نجف علی

بام جہان رپورٹ

بلتستان جو چار اضلاع پر مشتمل ہے اور جس کی آبادی 8 لاکھ کے قریب ہے، گلگت بلتستان کا اہم ترین خطہ ہے جس کی دفاعی اور سیاحت خاص طور پر کوہ پیمائی کے لحاظ سے بڑی اہمیت ہے. بلتستان دنیا کے اونچے ترین پہاڑوں، طویل گلیشروں، بلند ترین وسیع میدانی علاقہ دیوسائی اور سرد صحرا اور قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ ہے. مگر اسے ترقیاتی اسکیموںم تعلیم و صحت کے شعبوں میں پسماندہ رکھا گیا ہے.
سیاسی و سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ فنڈز کی تقسیم میں بلتستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے. انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی خستہ حالی اور ہوائی سفر کے کرایوں میں اضافہ کی بدولت لوگوں کو شدید دشواریاں پیش آرہی ہیں.

پی آئی اے کے کرایوں میں کمی کا مطالبہ

سیاسی و سماجی کارکنوں نے کہا ہے کہ پی آئی اے نے حال ہی میں نے پورے ملک کے پروازوں کے کرایوں میں کمی کی ہے جب کہ گلگت بلتستان کے کرایوں میں کوئی کمی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں بلتستان کے سول سوسائٹی کے کارکنوں، نجف علی، محمد علی دلشاد، آغا انور شاہ اور حاجی احسان نے پی آئی اے کے سربراہ کے نام کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان نہایت پسماندہ ،دورافتادہ اور دشوار گزار علاقہ ہے. یہاں کے شہریوں کو مختلف کاروبار، تعلیم اور علاج معالجہ کیلئے پاکستان کے مختلف شہروں کی طرف سفر کرنا مجبوری ہے. شاہراہ قراقرم کی مرمت، خستہ حالی، باربار بند ہونے اور غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے بائی روڈ سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں. خظ میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کا مقصد ریاست کے شہریوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے. جس کی وجہ سے کئی سال پہلے گلگت بلتستان کے مسافروں کو رعایتی ٹکٹ کے علاوہ فلائٹ کینسل ہونے کی صورت میں مفت رہائش فراہم کی جاتی تھی. اب گلگت بلتستان کے مسافروں کے ان سہولیات کا چھیننے کے علاوہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے پانچ گنا زیادہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے جوکہ گلگت بلتستان کے مسافروں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے.

انہوں نے لکھا ہے اسلام آباد سے کراچی کا سفر 3 گھنٹوں کا ہے اور کرایہ صرف 12 ہزار روپے ہے جبکہ اسلام آباد تا سکردو کا صرف 45 منٹ کا ہے جبکہ کرایہ 18 ہزار سے 20 ہزار روپے لئے جارہے ہیں جوکہ یہاں کے مسافروں کے ساتھ زیادتی ہے.. انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا پی آئی اے کی غلط پالیسیوں سے ہونے والے خسارے کا صرف گلگت بلتستان کے لوگ ذمہ دار ہیں؟

گلگت بلتستان کے مسافروں سے پہلے ہی زیادہ کرایہ وصول جارہا ہے. اور حال ہی میں ملک کے دوسرے شہروں کے لئے دی گئی 30 فیصد رعایتی پیکج سے محروم رکھا گیا ہے جس سے یہاں کے باسیوں میں شدید غم و غصہ اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے.

انہوں نے کہا کہ بلتستان کے عوام نے 28 ہزار کنال رقبہ ائرپورٹ کیلئے مفت فراہم کی ہے. جس کا صلہ کرایوں میں اضافہ اور بار بار فلائٹ کی منسوخی اور کئی کئی دنوں تک فلائٹ شیڈول نہ رکھ کر دیا جارہا ہے.
انہوں نے پی آئی اے کے چئیرمین ائر کموڈور ریٹائرڈ ارشد ملک سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے مسافروں کے کرایہ میں کمی کریں. فلائٹ شیڈول میں اضافہ کریں. اور حال ہی میں دئے گئے رعایتی پیکج کو بھی یہاں لاگو کریں.

روندو کے حلقے سے انتخاب لڑنے والے آزاد امیدوار نجف علی نے بجلی، صحت ، تعلیم ، سڑکوں اور دیگر ترقیاتی کاموں میں سست روی کا ذکر کرتے
کہا کہ بلتستان کو جان بوجھ کر تعمیر وترقی میں پیچھے دھکیلا جارہا ہے ۔ اسکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی کوغیر فعال اور فنڈز سے محروم رکھا گیا ہے۔ پچھلے سال منظور شدہ سکیموں کا پی سی ون نہیں بنایا جا رہا ہے ، بلتستان کے اسکیموں پر تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں ، فنڈز کی تقسیم غیر منصفانہ ہورہے ہیں۔ مکمل شدہ سکیموں پر پی سی فور منظور نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم وصحت شدید متاثر ہے۔

بجلی کا بحران

بجلی کے بحران پر ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں نئی حکومت اور سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کا بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔
بلتستان کے پورے ڈویژن میں یہ بحران سنگین تر ہو گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عوام احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔ پثلے دنوں عوام نے اسکردو شہر میں مظاہرہ کیا تھا.

سیاسی و سماجی کارکنوں نے بھی اس مسئلے کو لے کر نو منتخب نمائیندوں، وزرا اور محکمئہ برقیات کے نا اہل اہلککاروں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
بلتستان کے سکردو ضلع جو ڈویژن کا دارلخلافہ شہر بھی ہے میں غیر اعلانیہ لوڈشییڈنگ کی وجہ سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ بچوں اور عمر رسیدہ لوگوں میں سانس کی بیماری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لوگ شہروں کا رک کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسکردو سمیت دوسرے ضلعے بد ترین لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں ۔ شغر تھنگ ہرپوہ اور غواڑی پاؤر پراجیکٹ پر کام نہیں ہورہاہے اورشتونگ نالہ پر بلتستان کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔

تعلیمی مسائل

تعلیمی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلتستان میں کالجزز اور سکولوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے طلباء وطالبات کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے ۔ بوائز ڈگری کالج اور وومن ڈگری کالج میں داخلہ کی گنجائش نہیں ہے ، روندو میں سرے سے کوئی کالج ہی موجود نہیں
نجف علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلتستان یونیورسٹی تباہی کے دہانے پر ہے اور مقامی نوجوانوں کے لیے اس کا دروازے بند ہے ۔
بلتستان یونیورسٹی گزشتہ چند سالوں سے مسلسل خبروں میں ہے اور اس کے وائس چانسلر پر سوشل میڈیا میں شدید تنقید کیا جا رہا ہے۔
این آئی ایس اور سیب نیب اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جا رہا ہے ۔ پولی ٹیکنیکل کالج کے ٹینڈرز پر دوسالوں سے محکمہ تعلیم گلگت کے انجینئرز سازش کررہے ہیں۔

صحت کے مسائل

نجف نے دعوی ٰ کیا ہے کہ سکردو ہسپتال میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی مشین نہیں ہے آج کل ایکسرے بھی مشکل سے ہورہےہیں ؛ خپلو، کھرمنگ،شگر اور روندو میں ڈاکٹرز اور صحت کے سہولیات میسر نہیں۔ اس لئے لوگوں کو مجبورا دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو ان کے محدود آمدنی پر اضافی بوجھ بنتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ تما اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ا سکردو میں جلانے کی لکڑی ناپید ہے، گندم اور آٹا نہیں مل رہا ہے.

مواصلات

سڑکوں کی حالت ناگفت بہ ہے، گلگت سکردو روڈ کی تعمیر اور معیار اورسرنگیں غائب ہے ، بلتستان کے تمام دیہاتوں کے سڑکیں موت کا کنواں بنے ہوئے ہیں۔ کارگل روڈ کھولنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔
بلتستان کے پولیس جوانوں کو گلگت اور دیامر میں رکھا ہوا ہے ، سکردو سے پولیس ٹریننگ سینٹر کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کیا کہ تمام نو منتخب نمائندے، بشمول اسپیکر اور وزرا اپنے حلقوں کے حمایتیوں اور ووٹروں کے شکریہ سے فارغ ہوں اور ہنی مون کے دور سے نکل کر ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں گے ورنہ” آپ کا بھی وہی حال ہوگا جو پچھلے سپیکر، وزراء اور ممبران اسمبلی کا ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں