Baam-e-Jahan

طالب علم کا قتل: پولیس کے دو اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج

اتوار کے روز کراچی مومن آباد تھانہ کے حدود میں پولیس کی فائرنگ سے 24 سالہ سلطان نذیر جان بحق ہوئے.

بام جہان رپورٹ

کراچی میں پولیس گردی کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ طالب علم سلطان نذیر کی ہلاکت کے خلاف نوجوانوں کے شدید احتجاج کے بعد رات گئے دو پولیس اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔

میڈیا خبروں کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے جان بحق ہونے والے طالب علم سلطان نذیرکو ڈکیت قرار دینے کے خلاف گلگت بلتستان کے طلباء اور نوجوانوں نے مومن آباد پولیس اسٹیشن کے باہر شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا.

ذرائع کے مطابق اتوار کی رات سلطان نذیر بائیکیا رائڈر پر میٹروول کسی رشتہ دار کے گھر جارہے تھے ۔ راستے میں حبیب بنک چورنگی منگھوپیر روڈ پر پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے رائڈر اور سلطان پیدل موٹر سائیکل کو قریبی پیٹرول پمپ تک لے جارہے تھے. اسی دوران پولیس نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں سلطان موقع پر ہلاک ہوا۔ پولیس نے ابتدا میں متوفی کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کیں اور ان کا موبائل بھی قبضے میں لیا. لیکن بعدمیں کراچی میں مقیم نوجوانوں اور طالب علموں نےخبر سن کے بڑی تعداد میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور تھانے کے باہر شدید احتجاج کیا۔

سماجی رابطہ کے صٖفحات پر بھی سیاسی و سماجی کارکنوں نے اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور کراچی پولیس پر شدید تنقید کیں اور سلطان کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ جس کے نتیجے میں پولیس کو اپنے دو اہلکاروں کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرنا پڑا۔

اس واقعہ کے بعد گلگت بلتستان کے وزیر اعلی خورشید احمد، سینئر وزیراور ہنزہ سے منتخب نمائندے کرنل ریٹائرڈ عبیدللہ بیگ اور حزب اختلاف کے رہنماء اور پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد حسین نے اپنے اپنے فیس بک پیجز پر دعوٰی کیا کہ انہوں نے سندھ گورنر اور صوبائی حکومت سے ٹیلیفون پر بات کی ہے جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی ار درج ہوا ہے۔ جس پر سوشل میڈیا کارکنوں نے ان پر شدید تنقید کیا اور ان کے دعوٰی کو غلط بیانی کہا۔

نوجوانوں اور طالب علموں کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس کے خلاف ایف آئی آر ان کے احتجاج کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ اسلئے سیاسی رہنماوں کو گھر بیٹھے کریڈیٹ لینے کے چکر میں اس قسم کی غلط بیانی نہیں کرنا چاہئے۔

اظہر الدین نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا ہے کہ "کراچی میں موجود گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے سائیٹ ایریا تھانہ میٹرول کا گھیراؤ کرتے ہوئے احتجاج کیا اور ریاست کو للکار کے ہمارے دوست مرحوم نظیر کو بے گناہ ثابت کرایا اور دو پولیس اہلکاروں کے خلاف پرچہ بھی ہوا.اس عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہمارے یہ نالائق اور کٹھ پتلی حکمران کریڈیڈ لینے کی کوشش کر رہے ہے.”

سلطان نذیر کا تعلق ضلع ہنزہ کے خانہ آباد گاؤں کے ایک غریب خاندان سے تھا ۔وہ اپنے والدین کا واحد چشم و چراغ اور کراچی میں ایک مقامی کالج میں انٹر میڈیٹ کلاس کےطالب علم تھے۔ وہ حصول علم کے ساتھ ساتھ صدر مین گارمینٹس کی دوکان پر نوکری کر رہے تھے۔
سلطان کے موت کی خبر سنتے ہی سیاسی و سماجی کارکنوں نے سماجی رابطہ کے صفحات پر شدید گم و غصے کا اظہار کیا اور مذمتی بیانات شائع کئے۔

ندیم اللہ برچہ نے اپنے فیس بک پیج پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بہت قابل مذمت اور صدمہ والی بات ہے۔ یہ بربریت کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستانی پولیس لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے اسلام آباد جیسے شہر میں ایک نوجوان کر بے دردی سے گولیوں سے بھون دیا اور 48 گھنٹے کے اندر اندر کراچی میں وہی عمل دہرایا۔”

واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے رہنماء بابا جان نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا کہ "یہ قتل بھی وردی والوں کی لاقانونیت کے طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس اپنا جرم چھپانے کے لئے اب نوجوان کو منفی انداز میں پیش کرنے کی بھونڈی سازش کررہی ہے۔

انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس افسوس ناک واقعے کی شفاف انداز میں تحقیقات کریں اور اس سانحے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

نوید حسین نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا ہے "کہ راؤ انوار کے شاگرد اب بھی موجود ہیں اور پولیس مقابلے کے جھوٹے واقعات میں بے قصور طلبہ اورشہریوں کو قتل کرتے ہیں۔ سندھ پولیس نے ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کو قتل کر کے بے دردی کی نئی مثال قائم کی”۔

نوجوان سیاسی کارکن اور این-ایس ۔ایف جی بی کے رہنماء عنائیت بیگ نے مومن اباد تھانے کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم دہشت گرد اور فسادی نہیں ہیں۔ ہم پردیسی ہینں۔ یہ سب جو یہاں احتجاج کے لئے جمع ہوئے ہیں پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ ہم اس شہر میں محنت مزدوری اور تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں اور اس شہر کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن اس کا صلہ ہمیں کیا ملتا ہے؟ ہم ہر مہنے لاش اٹھا کے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتے ہیں”۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں انصاف چاہئے؛ ہماری مقتدر قوتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ شفاف طریقے سے اس واقعہ کی تحقیقات کریں اور لواحقین کو انصاف ملیں اور اس قسم کے واقعات کا ازالہ ہو۔”

عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر عمار رشید نے اپنے ٹویٹر اکائینٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ "ایک اور محنت کش طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان سلطان نذیر جن کا تعلق ہنزہ سے، کو گھر جاتے ہوئے گولہ مار دی گئی۔ پولیس گردی اور ریا ستی بربریت کا خاتمہ کہیں نظر نہیں آتا۔

گلگت بلتستان میں مختلیف طلباء تنظیموں نے اس واقعہ کے خلاف منگل کے روز احتجاج کی کال دی ہے۔ اس سلسلے میں نیشنل اسٹو ڈینٹس ٖفیڈریشن گلگت بلتستان نے علی آباد میں ہنزہ پریس کلب کے سامنے 2 بجے احتجاج رکھا ہے۔

پولیس گردی کے واقعات

پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں دو دن کے اندر کسی بے گناہ شہرئ کی ہلاکت کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ہفتے کی رات اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 22سالہ نوجوان اسامہ ندیم ستی ہلاک ہوئے اسے بھی ابتدا میں پولیس نے اپنے جرم کو چھپانے کے لئے کار چور اور دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشیش کیں لیکن تاجروں اور شہریوں کی شدید احتجاج اور کشمیر ہائے وے کو تین گھنٹے تک بند رکھنے کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا اور جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جو اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی۔

یہ دو ہلاکتیں ریاستی دہشت گردی کا افسوسناک تسلسل ہے۔ ملک میں لاقانونیت پر قابو اس لیے نہں پایا جا سکا کیونکہ ریاستی سیکوریٹی ادارے خود کسی قانون کے تابع نہیں اور پورا ریاستی ڈھانچہ اسی اصول پر قائم ہے۔
اس دو ہلاکتوں اور اس سے قبل ساہیوال، علی آباد اور حب اور مچھ بلوچستان کے سانحوں نے بے لگام ریاستی اداروں کا گھناونا چہرہ، ان کی کارکردگی اور نظام انصاف کی بے رحمی کو ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔

اس نااہل حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والوں کے خلاف 72 گھنٹے میں غداری کے مقدمات قائم کرنے اور دھمکیوں کی بجائے ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں ان کو لگام دیں اور نظام انصاف اور فوجداری کو ٹھیک کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے