بابا جان کی رہائی کا جشن منانے کے سلسلے میں عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ نے 23 جنوری 2021 کو ایک بین البراعظمی ویبینار کا اہتمام کیا جس میں کویت سے سینئر ترقی پسند صحافی جاوید احمد نے پاکستانی محنت کشوں تارکین وطن کے مسائل کے حوالے درج ذیل گزارشات پیش کیں۔
تحریر: جاوید احمد
میں اپنےتمام ترقی پسند ساتھیوں کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے تارکین وطن کے تین بڑے گروپ ہیں۔جن میں خلیجی ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ،کویت، قطر، بحرین اور عمان شامل ہیں۔ان ممالک میں موجود تقریباً پچاس لاکھ پاکستانی محنت کشوں کے کوئی معاشی، سیاسی حقوق نہیں ہیں۔یہ یورپ اور شمالی امریکا کے برعکس ٹریڈ یونین نہیں بنا سکتے، مقامی عورت سے شادی نہیں کر سکتے، یہاں جائیداد نہیں خرید سکتے اور کلی طور پر کاروبار بھی نہیں کر سکتے۔یہ تارکین وطن صرف ایک مقامی سپانسر (کفیل/ارباب) کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کنٹریکٹ ختم ہوجانے پر اپنے وطن واپس جانا پڑتا ہے۔ تب بعض اوقات بقایاجات کی مکمل ادائیگی بھی نہیں کی جاتی۔ علاوہ ازیں تقریباً چھ ہزار معمولی لڑائی جھگڑے، کفیل/ارباب سے اختلاف اور مقامی زبان سے لاعلمی کی بنا پر جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ جن بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جب کہ دوسری طرف یہی تارکین وطن پاکستان کی تقریباً مجموعی برآمدات کے مساوی رقم یعنی 22 بلین ڈالر (تقریبا 35.40 کھرب روپے) سالانہ پاکستان بھجواتے ہیں۔
اس ویبنار میں شریک 17 میں سے 13 تارکین وطن ہیں۔کورونا وائرس کے اثرات سے تقریبا 5 لاکھ پاکستانی محنت کش بے روزگار ہو کر واپس پاکستان جا چکے ہیں۔ جب کہ ہزاروں ہوائی پروازوں کے معمول پر بحالی کے منتظر ہیں۔ ان بے روزگار ہو کر جانے والے محنت کشوں کی کوئی آواز نہیں۔
پاکستان کے آئین میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کسی حد تک موجود ہیں اور اقلیتوں کی نمایندگی بھی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اپنی کل آمدن کا بڑا حصہ وطن بھجوانے والوں کی پارلیمنٹ میں کوئی نمایندگی کیوں نہیں؟ ایک اوورسیز کی وزارت کھڑی کر رکھی ہے جو کہ اب تک کوئی معقول کام نہیں کر پائی۔البتہ پاکستان سے آنے والا ہر وزیر، مشیر، سفیر ہمارے مسائل کو خاطر میں لائے بنا ہمیشہ حب الوطنی کا ا نجیکشن لگا کر چلا جاتا ہے۔ نیز پاکستانی اوورسیز کی پاکستان میں جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کے مسائل ہیں۔جن سے منتقسم خاندانوں کے بچوں پر کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان میں طلاق کی شرح میں کئی فی صد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی بائیں بازو کی کسی بھی پارٹی کے پروگرام میں 90 لاکھ تارکین وطن کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں کوئی شق شامل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ عوامی ورکرز پارٹی کے منشور میں صرف ایک سطر "تارکین وطن کو ووٹ کا حق دیا جائے” موجود ہے!۔ حیرت ہوتی ہے کہ محنت کشوں کے نام پر کام کرنے والی پارٹی نے ان کو کیسے نظر انداز کر دیا۔
ہم کیا چاہتے ہیں؟
سپریم کورٹ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دے چکی ہے۔ تارکین وطن قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمایندگی کا حق چاہتے ہیں۔ نیز سیاسی عمل میں شرکت کے احساس کے ساتھ ہی یہ وطن سے جڑ پائیں گے اور اپنے آپ کو بااختار محسوس کریں گے، علم کی منتقلی میں اہم کردار ادا کریں گے اور وطن کا نمایندہ بن کر مثبت قومی تشخص ابھاریں گے۔
خلیجی ممالک میں مقیم 50 لاکھ پاکستانی قومیت کے حامل یہ افتادگان خاک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے پاسپورٹ پر مذہب کا خانہ کیوں ہے؟ ہمیں پاسپورٹ بنوانے پر ایک مخصوص ڈیکلیریشن کیوں دینا پڑتا ہے۔ جب کہ دنیا کی اکثر مسلم ریاستوں کے پاسپورٹ پر مذہب کا خانہ نہیں ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں غالباً شوکت عزیز نے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذہب کے اندراج کے خانے/کالم کو دوبارہ بحال کیا تھا۔
یورپی یونین نے بھی پاکستانی پاسپورٹ پر مذہبی خانے/کالم کی بحالی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اسے مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
جناب کامریڈ یوسف مستی خان صاحب! ہم چاہتے ہیں کہ آپ عوامی ورکرز پارٹی کی ترجیحات میں پاکستانی تارکین وطن کے مسائل کو بھی شامل کریں تاکہ ترقی پسند سیاست کا دائرہ وسیع ہو سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک پیچیدہ اور وسیع تر عمل ہے، جس میں پاکستانی تارکین وطن اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
میں آخر میں ایک عام رائے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کو تارکین وطن کی حمایت حاصل ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو کہ اقتدار سے پہلے تارکین وطن کو ہنڈی سے رقم بھجوانے کے لیے اکساتا تھا اور اب پیسے بذریعہ بینک قانونی طور پر بھجوانے کو کہتا ہے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ نوےلاکھ پاکستانیوں میں سے اب تک صرف 7 لاکھ رجسٹرڈ تارکین وطن کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔
جاوید احمدایک ترقی پسند صحافی، ادیب اور دانشور ہیں. وہ کویت میں مقیم ہیں.
One thought on “نو ملین پاکستانی تارکین وطن محنت کشوں کے مسائل”
بہت خوب کامریڈ جاوید صاحب ، آپ نے جو تجاویز دی ہیں وہ اپ کی چالیس سالہ مسافرت کی زندگی کا نچوڑ ہیں ، دیارِ غیر میں تارکین وطن جن مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں اسے محسوس تو ہر کوئی کرتا ھے مگر اس کے حل کی جانب اب تک کسی نے عملی قدم نہیں اٹھایا جبکہ آپ نے محنت کشوں کی آواز کو محنت کشوں کے پلیٹ فارم پر نہ صرف اٹھائی ھے بلکہ اس سے منشور کا حصہ بنانے کیلئے یہ آپ ہی کی initiative ھے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں