Baam-e-Jahan

‘اے.بی.ایم نیشنل پارکس کی آڑ میں عوام کے زمینوں پر قبضہ کی مزاحمت کرے گی’

نانگا پربت اور ہمالیہ نیشنل پارکس کی آڑ میں گلگت بلتستان کی جیوگرافی اور ڈیموگرافی کو تبدیل نہ کیا جائے ۔آل بلتستان موومینٹ

رپورٹ: ممتاز شگری

کراچی: آل بلتستان موومنٹ نے بھی گلگت بلتستان میں دو نئے نیشنل پارکس بنانے کی مخالفت کی ہے اور اسے زمینوں اور وسائل پر قبضہ کی سازش قرار دیا.

ایک بیان میں اے بی ایم کے مرکزی صدر ذولفقار علی شگری نے کہا ہے کہ اگر کیہں کوئی جنگلی حیات ناپید ہورہی ہے تو وہاں کمونٹی کنزورویشن کے ذریعے جانوروں کا تحفظ کیا جائے.
انہوں نےکہا کہ موجودہ حکومت ک منصوبہ سیاحت کی ترقی اور "گرین ملازمتوں” کے نام پرلوگوں کو بے وقوف بنا نے اور ان کو ان کے ملکیتی زمینوں اور وسائل سے محروم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ذوالفیقار شگری کا کہنا ہے کہ IUCN کے مطابق عوامی ملکیت والی زمینوں کو نیشنل پارک نہیں بنایا جا سکتا. بلکہ وہاں سے جانوروں کو کسی محفوظ ایریا میں منتقل کیا جاتا ہے.

لیکن ہمارے ہاں تو حکمران جہاں چاہے کارپوریٹ اور لینڈ مافیہ کے مفادات کے لئے نیشنل پارکس بناتے ہیں۔ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران اشرافیہ نے کس قانون کے تحت گلگت بلتستان کے 50٪ رقبہ کو نیشنل پارکس ڈیکلیر کیا ہے؟ اس میں زیر کاشت زمینیں بھی ہیں، سیاحتی مقامات بھی ہیں، جھیلیں اور چراگاہیں بھی ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ "کیا عوام کی رائے اور رضامندی کے بغیر ایسا کرنا ملکی اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا عوام کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟”

ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس طرح بننے والے نیشنل پارکس میں ہونے والے سیاحتی سرگرمیوں سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہورہا ہے؟ خطرے سے دوچار جنگلی حیات کو کتنا تحفظ حاصیل ہوا ہے؟

دوسرا اور سب سے اہم مسئلہ چھوٹا دیوسائی کا ہے جہاں کھلم کھلا شب خون مارا گیا ہے. کس قانون کے تحت گلتری کی ڈیموگرافی تبدیل کی گئی ہے؟ اور 200 کلومیٹر تک کا رقبہ استور کے حصے میں چلا گیا؟

ذوالفیقار کا کہنا ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر ایک مرلہ کا پلاٹ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوسکتا تو یہاں 200 کلومیٹر اصل مالکوں سے پوچھے بغیر نقشے سے غائب کیسے کئے گئے؟

انہوں نے تجویز پیش کیا کہ اس مسئلے کو استور اور بلتستان کے عوام کو مل کے حل کرنا چاہئے. یہ صرف گلتری یا بلتستان کا مسئلہ نہیں یہ پورے گلگت بلتستان کا مسئلہ ہے اور یہ طویل عرصے سے ہورہا ہے۔

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب عوام جاننا چاہتی ہیں۔

حکومتی سہولت کار بتائیں کہ عوامی حقوق پر شب خون مارنے کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کتنے میں کیا ہے؟

انہوں نے خبردار کیا کہ نوجوان اس قسم کے عوام دشمن فیصلوں کی مزاحمت کریں گے۔
حکومتی اہلکار مقامی لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کے ایسے فیصلے نہیں کر سکتے۔

اے بی ایم کے صدر نے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد نیشنل پارکس کےنوٹیفیکیشن منسوخ کر کے کمیٹی بنائی جائے جو اس مسئلے پر فیصلہ کرے. کوئی ایسا فیصلہ جو عوام کی رائے اور رضامندی کے بغیر ہو اس کی کوئی وقعت نہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی میں لوگ اس لئے نمائندے بھیجتے ہیں کہ وہ ان کے حقوق کا تحفظ کر سکے. اگر منتخب نمائندے ہی سہولت کاری کرنے لگ جائیں تو عوام اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے خود میدان میں نکلیں گے۔

حکومتی ایوان میں بیٹھے لوگوں کو چاہئے کہ عوامی رائے کے مطابق فیصلہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں آئے روز خالصہ سرکار کے نام پہ زمینیں ہڑپ کی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ اب رکنا چاہئے۔ کوئی بھی ایسا اقدام جس سے عوام کو یا عوامی املاک کو بلواسطہ یا بلا واسطہ نقصان پہنچے قابل قبول نہیں ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ آل بلتستان موؤمنٹ کبھی اس طرح کے فیصلوں کی حمایت نہیں کرے گی جس سے عوام میں تشویش پیدا ہو جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں