صوفی شعراءکے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ غزالہ سیفی، پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی ورثہ و ثقافت؛ جوہر علی جوہر ایک باکمال صوفی شاعر تھے، سیدامجد علی زیدی، سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی
بام جہان رپورٹ
اسلام آباد: ادیبوں، شاعروں، اور عوامی نمائندوں نے بدھ کے روز بلتستان کے عظیم صوفی شاعر جوہر علی جوہر کی شاعری اور شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے شاندار خراج عقدیت پیش کیا.
بوا جوہر علی جوہرقومی ادبی سیمنار کا اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان نے اسلام اباد میں کیا تھا.
غزالہ سیفی، پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن،مہمان خصوصی تھیں۔ مجلس صدارت میں یوسف حسن آبادی اورسید امجد علی زیدی، سپیکرگلگت بلتستان اسمبلی شامل تھے۔ محمد حسن حسرت اور محمد قاسم نسیم نے مقالات پیش کیے؛ نظامت مشہور شاعر احسان علی دانش نے کی۔
محمد کاظم میثم، وزیر زراعت، گلگت بلتستان اور پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم خان، وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی، مہمانان اعزاز تھے۔
مقررین نے کہا کہ جوہر علی جوہر بلتی زبان کے عظیم صوفی شاعر تھے.
استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئےا کادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نےکہا کہ جوہر علی جوہر نے بلتی شاعری میں صنف بحر طویل خوبصورت انداز میں استعمال کیا۔
انہوں نے بھی دیگر زبانوں کے صوفی شعراء رحمٰن بابا، شاہ عبد اللطیف بھٹائی، میاں محمد بخش، بلھے شاہ، مست توکلی، سچل سرمست اور حبہ خاتون کی طرح امن و محبت اور بھائی چارہ کادرس دیا۔
انہوں نے کہا کہ بلتی زبان میں لکھی ہوئی تخلیقات کو تراجم کے ذریعے قومی دھارے میں شامل کریں گے۔ ڈاکٹر خشک نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اکادمی ادبیات کی شاخ کا قیام ضروری ہے۔
غزالہ سیفی، پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی ورثہ وثقافت نے کہا کہ صوفی شاعر خواہ شنایا بلتی زبان کا ہو یا اردوکا، پیغام ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ خلق خدا سے محبت۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمیں مذہبی بنیادپرستی، لسانی عصبیت، دہشت گردی اور عدم رواداری جیسے مسائل کا سامناہے. عدم برداشت ایک ایسی دیمک ہے جو ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے. ان مسائل کا پائیدار حل تب ہی ممکن ہے کہ صوفی شاعروں کا پیغام محبت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجائے ۔
یوسف حسن آبادی نے کہاکہ جوہر علی جوہر کی شاعری میں سلاست روانی اور منظر کشی قابل ذکر عناصر ہیں۔ انہوں نے رزمیہ واقعات نگاری کو بھی مہارت کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا ہے۔
سید امجد علی زیدی نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام پہلی دفعہ گلگت بلتستان کی زبان کے عظیم صوفی شاعر جوہر علی جوہر کی یاد میں تقریب ہورہی ہے۔ اس کے لیے چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک بجاطور پر مبارک باد کے مستحق ہے۔
گلگت بلتستان میں اکادمی کے دفتر کے قیام کے سلسلے میں ہم سب ڈاکٹر خشک کے ساتھ بھر پورتعاون کریں گے۔
محمد کاظم میثم ، وزیر زراعت ، گلگت بلتستان نے کہا جوہر علی جوہر نے اپنی شاعری کے ذریعے علم و عرفان کی شمعیں جلائیں۔
بحر طویل کو نچوڑنے سے علم و عرفان کے سمندر موجزن ہو جائیں اور یہی کام جو ہر علی جوہر نے اپنی شاعری کے ذریعے کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم خان، وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی، نے کہا کہ گلگت بلتستا ن کی محبت کا پیغام ساری دینا تک پہنچانے میں اس خطے کے نامور شاعروں اور ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور بلتستان یونیورسٹی کے علمی و ادبی معیار کو بلندکئے رکھا۔
انہوں نے کہا کہ بلتستان یونیورسٹی نہ صرف اپنے خطے میں بلکہ پورے پاکستان کے لیے علم و ادب کی روشنی پھیلارہی ہے اور گلگت بلتستان کی نئی نسل کی علمی ادبی تربیت کرر ہی ہے۔
محمد حسن حسرت نے کہا کہ جوہر علی جوہر ایک کلاسیکی اور آفاقی سوچ کے بڑے صوفی شاعر تھے۔ وہ عشق حقیقی کے سمندر میں غوطہ زن نظر آتے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے والہانہ عشق کرتے تھے۔
وہ بلتی زبان میں بحر طویل کے بانی ہیں۔ ان کی شاعری سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
محمد قاسم نسیم نے کہا کہ عارفانہ اور صوفیانہ شاعری میں جوہر علی جوہر کا نام سب سے نمایاں ہے. آپ قادر الکلام شاعر، درویش اور قلندر صفت انسان تھے۔ غلام حسن حسنو نے کہا کہ جو ہر علی جوہر کی شاعر ی پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
حسن خان آماچا نے جوہر کی شاعری کی فنی محاسن اور بحروں پر گفتگو کی۔
سافق ایجوکیشن سیکریٹری خواجہ مہر داد نے کہا کہ جوہر علی جوہر کی صوفیانہ شاعری نے اس خطے میں امن کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کیا۔غلام مہدی شاہد اور یوسف علی کھسمن نے جوہر علی جوہر کو منظوم خراج پیش کیا۔