Baam-e-Jahan

اذیت کا مضحکہ خیز اور سفاکانہ نظام

عاصم سجاد اختر

نازی جرمنی کی وحشت کے دور کا ایک پہلو جس کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے جبری گمشدگیوں کو ادارہ جاتی شکل دینا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے عروج کے دنوں میں ہٹلر نے’ نائٹ اینڈ فوگ’ نامی حکم نامہ جاری کیا جس پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں مخالفین کو جبری طور پر لاپتہ کر کے اذیت خانوںمیں ڈال دیا گیا۔
میں نے اس تحریر کا آغاز بیسویں صدی کے وسط کے فسطائی حکمرانوں کے ذکر سے اس لیئےکیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریر کو پڑھنے والے بہت سے معقول قاری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ موجودہ حکمراں ہمارے اجتماعی شعور پر قابل نفرت داغوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہےکہ انسانیت مجموعی طور پر اس دور اور اس کے قبیح اعمال سے آگے بڑھ چکی ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے کچھ دہائی آگے بڑھتے ہوئے ہم آتے ہیں لاطینی امریکہ میں۔ 1960 کی دہائی کے وسط سے قریب دو دہائی تک برازیل، ارجنٹائن اور چلی سمیت بہت سے دیگر ممالک آمریت کے زیر دست رہے جن کے ہاتھوں ہزاروں مخالفین لاپتہ ہوئے۔ بہت سے کبھی واپس نہ آئے اور جو واپس آگئے وہ پہلے جیسے نہ رہے۔
حالیہ تاریخ میں بہت سی حکومتوں نے جبری گمشدگیوں کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنایا۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت، چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور لوگوں پر ظلم و ستم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر گوانتانامو بے میں امریکی ایذا رسانی کے مراکز انہی پالیسیوں کی چند قابل ذکر مثالیں ہیں۔
جبری گمشدگیوں کے پالیسی کے ساتھ ہمارا تجربہ نئی بات نہیں۔ مشرف دور حکومت میں جبری گمشدگیاں باقاعدہ منظر عام پر آنے لگی۔ بلوچستان سے لوگوں کے جبری گمشدگیوں کے ساتھ ساتھ وہ مجاہدین بھی لاپتہ ہونے لگے جن کی کبھی سرپرستی کی جاتی تھی جو کہ 2001 کے بعد ناپسندیدہ کردار بن گئے۔ تب سے ریاستی معاملات میں فوجی عمل دخل کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیاں بھی سماج کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔
لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ نے اس عمل کا گزشتہ 15 سالوں سے جس بہادری سے مقابلہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک مرتبہ پھر وہ اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے احتجاج کو حکومتی جماعت کی جانب سے تب ہی توجہ مل سکی جب حزب اختلاف کے رہنماؤں نے احتجاجی کیمپ کا دورہ شروع کیا۔
اس کے بعد وہی ہوا جس کا امکان تھا۔ کچھ سیاسی بیانات دیئے گئے کہ معاملہ اعلٰی سطح پر اٹھایا جائیگا اور جبری گمشدگیوں کو غیر قانونی قرار دینے کیلئے ایک بل پارلیمان میں پیش کی جائیگی۔ قانون سازی کسی حد تک طاقت کے بے جا استعمال کو روکنے میں موثر ہو سکتا ہے جیسا کہ فلپائن، میکسیکو اور تائی لینڈ جیسے ممالک میں دیکھنے میں آیا۔ امید ہے کہ پاکستان میں بھی قانون سازی اتنی ہی موثر ہوگی البتہ قانون سازی کی حمایت کے دعوے اپنی جگہ حکومت نے حال ہی میں اختر مینگل اور محسن داوڈ کی جانب اسی طرح کے ہی ایک بل کو پاس ہونے نہیں دیا۔
موجودہ حکومت بلاشبہ سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی ایک بدتر شکل میں سامنے آئی ہے اس سے پہلے حکومتوں نے بھی نو آبادیاتی بنیادوں پر قائم ریاستی عمل داری کو تبدیل کرنے میں قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ مشرف آمریت کے بعد سے تین مختلف حکومتیں آئی لیکن ان میں سے کسی نے بھی جبری گمشدگیوں میں ملوث قوتوں کو قانون کے سامنے لانے کی ہمت نہیں کی۔
پاکستانی فوجی شاہی کی انفرادیت اپنی جگہ ہمیں اس مغالطہ میں نہیں پڑنا چائیے کہ عالمی جمہوری لہر نے یورپی فاشزم یا سابقہ نو آبادیات میں آمرانہ طرز حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود جو کچھ مغربی ممالک میں ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترکی، نائجیریا اور انڈونیشیا جیسے ممالک بشمول لاطینی امریکہ کے ممالک جن کا اوپر ذکر کیا گیا دہائیوں سے فوجی حکومتوں کے زیر دست رہے وہاں اب جمہوریت بحال ہو چکی ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان ممالک میں اندرونی تنازعات ، ریاست کی آمرانہ منطق ، اور اردوگان جیسے عوامی جزبات پر سیاست کرنے والے’ ڈیماگاگس’ وجود نہیں رکھتے۔ فوجی شاہانہ طرز حکومت کی برائیوں اور نسلی اکثریت پسندی کا شکار میانمار اپنے آپ میں ایک مثال ہے جو اوپر بیان کیئے گئے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت پاکستان سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہم ایک اور مصالحت کے شکار سینٹ الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اورشنید ہے کہ بلوچستان کی سیٹوں پر سب سے زیادہ پیسے کی ریل پیل اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا عمل دخل ہونے جا رہا ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے بلوچ خواتین ہمارے عہد میں جمہوریت، آزادی اور بردباری کی مجسم صورت ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو رواج دینے والے لاطینی امریکہ کے آمروں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے مصداق یہ خواتین نہ صرف خود کے اور اپنے گمشدہ پیاروں کی آواز ہیں بلکہ وہ تمام مظلوموں کے لیئے بھی آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ خواتین ہمیں امید دلاتی ہیں کہ اذیت کا یہ مضحکہ خیز اور سفاکانہ نظام ایک دن ضرور زمین بوس ہوگا۔
یہ مضمون سب سے پہلے ڈان نیوز کے صفحات پر چھپ چکا ہے.

    عاصم سجاد اختر عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی رہنماء، استاداور مصنف ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں