تحریر: اشفاق احمد ایڈووکیٹ
گلگت بلتستان کے لیے اعلان کردہ حالیہ حکومتی ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کیے جانے پر ضلع غذر میں احتجاج اورسوشل میڈیا پر بحث و تکرار کا سلسلہ ہے۔ بصد افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ دلیل کی بجائے دشنام طرازی کا بازار گرم ہے ۔ صورت حال پر معروضی انداز میں سنجیدہ بحث و تمحیص کی بجائے بہت سارے تعلیم یافتہ نوجوان بھی محض تنقید برائے تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ عوامی رائے یا موقف پر اثر انداز ہونے کے لئے افراد کے خلاف منظم تشہیری مہم چلائی جا رہی ہے ۔ یہ صورت حال ہمارے معاشرے میں سرایت کردہ منفی سوچ اور غیر سیاسی طرزِ عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سوچ کے اپنے محرکات ہیں۔ جس طرح درخت اپنی جڑوں سے نمی کشید کرتے ہیں ،اسی طرح ایک فرد معاشرے کی معاشی اور سماجی جڑوں سے اپنے خیالات کشید کرتا ہے ۔ معاشرے کی جڑوں تک پہنچی ہوئی نفرت نئی نسل کے خیالات، گفتگو اور طرزِ عمل میں جھلکتی ہے۔
سماجی و معاشی بے یقینی ایک تکلیف دہ امر ہے مگرسچ یہ ہے کہ مدتوں بعد ضلع غذر میں روحانی غلامی سے آزادی کا حوصلہ افزا آغاز ہوا تھا۔ مگر مثبت سمت میں ڈھلنے کی بجائے دھیرے دھیرے اس نے ایک ایسی تنہائی کی صورت اختیار کر لی ہے جو معاشرتی ترقی و استحکام کے لیے غیر موزوں ہے۔ قومی سطح پر اس سماجی اجنبیت کے نتائج نا خوشگوار ہونگے ۔ لہذا گلگت بلتستان میں قومی سیاست کے لیے ایسے بامعنی اصول طے کرنے کی صْرورت ہے جو انتشار کی بجائے معاشرتی اتحاد پیدا کرسکیں -گلگت بلتستان کے موجودہ معروضی حالات میں وقوع پذیر ہونے والے نئے سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنے کے لیے رہنماوں کو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ تقسیم کرو اور حکومت کرو والی نوآبادیاتی پالیسی کے تحت عوام پر ٹھونسا گیا انتشار ہولناک ہوگا۔
درحقیقت ،اختلاف رائے دلیل اور ثبوت کے ساتھ کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین پر الزامات لگانے کی روایت گلگت بلتستان میں بہت پرانی ہے -ایک سیاسی ذہن کے ساتھ اختلاف اور تنقید کرنا بہت اچھی بات ہے مگر کسی کی ذات کو نشانہ بنانا غیر اخلاقی عمل ہے۔ پہلے سرکار یہ کام کرتی تھی اب عام سیاسی کارکن بھی اسی روایت پر عمل پیرا ہیں ۔بقول جارج آرویل، ایک معاشرہ جتنا سچ سے دور ہوتا جاتا ہے ، اُتنا ہی وہ سچ کہنے والوں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
حکومت کے اعلان کردہ ترقیاتی منصوبوں میں غذر کو نظر انداز کیے جانے کے مسئلے پر دو روز قبل میں نے ایک مضمون لکھا ۔ اس پر سوشل میڈیا پر کچھ حضرات نے نظریاتی اختلاف کرنے کی بجائے ذاتیات پر رائے زنی شروع کی ، حالانکہ میں نے مضمون میں اخلاقیات و سماجی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار کیا تھا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ان لوگوں نے علاقہ کے اہم مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میری ذات کو ہدفِ تنقید بنایا۔ عام طور پر میرے نقطہ نظر سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے جو وائسرائے بن کر اس خطے پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت لازمی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے قومی سوال پر میرا ایک واصْح نقطہ نظر ہے ، جس کے تحت مسلسل لکھ رہا ہوں۔ دشنام طرازی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ میں کسی کا درباری ہوں نہ جی حضوری کرتا ہوں۔ جو کہتا ہوں وہ میرے ضمیر کی آواز ہے۔ دراصل اس طرح کے لوگ قوم کو آپس میں لڑانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ تمام افتادگان خاک آپس میں دوست بنیں اور متحد ہو کر اپنے حقوق کا دفاع کریں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ نفرت بو کر قوم کو تقسیم کریں تاکہ دوسروں کا کام آسان ہو.
ایسے لوگوں کے طرزِ عمل سے مجھے زارِ روس کے عہد کے ایک اہم کردار عیسائی پادری ، فادر گیپون کی کہانی یاد آتی ہے جس کا ذکر مشہور کمیونسٹ انقلابی مفکر و مدبر، لیون ٹراٹسکی نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔
22 جنوری 1905 کو فادر گیپون نے زار ِروس کو ایک عوامی درخواست پیش کرنے کے لیے کیے گئے عوامی مارچ کی قیادت کی تھی ۔ اس پُرامن مارچ میں ہزاروں کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔اگرچہ، یہ ایک پُرامن تحریک تھی مگر زار کی پولیس نے لوگوں پر فائر کھول دیا ۔ تاریخ میں یہ واقعہ خونی اتوار کے نام سے مشہور ہوا۔ بالشویک پارٹی نے لینن کی قیادت میں ایک طویل جدوجہد کے بعد سال 1917 میں زار روس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر ان تمام روسیوں کا ریکارڈ چیک کیا گیا جو انقلابیوں کے روپ میں درحقیقت رد ِانقلاب کے لیے زار روس کی پولیس کے لیے مخبری کرتے تھے۔ بقول ٹراٹسکی ، انقلابیوں کو یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ ان میں فادر گیپون کا نام سرفرست تھا ۔ درحقیقت وہ زار ِروس کی خفیہ پولیس کا چیف تھا۔ ٹراٹسکی لکھتے ہیں کہ فادر گیپون نے لینن کی جلاوطنی کے زمانے میں بیرون ملک جاکر ان سے ملاقات بھی کی تھی اور لینن دل اُسے اپنا ہمدرد مانتا تھا ۔ فادر گیپون کو انقلابیوں نے بعد ازاں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
گلگت بلتستان میں بھی اسی طرح کی صورتحال جنم لے چکی ہے اور وطن کا دکھ درد رکھنے والے حقیقی سیاسی کارکنوں کے درمیان ایسے دوغلے لوگ بھی متحرک نظر آتے ہیں اور آنکھ مچولی کا کھیل کھیلے جا رہے ہیں ۔ ان کا کردار بھی فادرگیپون جیسا ہے، لہذا ہمارے نوجوانوں کو ان سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نوآبادتی نظام کی ایک بنیادی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں سرکاری بیانیہ سے متصادم نقطہ نظر رکھنے والے قوم پرستوں، انقلابیوں اور انقلاب مخالفین کے ساتھ ساتھ تمام درباریوں کا بھی ریکارڈ رکھا جاتا ہے ۔ جب تاریخ کا دھارا اپنا رُخ بدلتا ہے تو ہر فادر گیپون بے نقاب ہوکر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلتستان چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی امور اور قوانین پر لیکچر دیتے ہیں. انہیں گلگت بلتستان کے آئینی و تاریخی موضوعات پر باقاعدگی کے ساتھ ان صفحات پر لکھتے ہیں.