رپورٹ: روشن دین دیامری
آج صبح دس بجے آچانک موبائل کی گھنٹی بجا. دیکھا تو ڈاکٹر سلیم کا نمبر تھا. ڈاکٹر صاحب ہمارے کالج کےدوست ہیں. آج کل داسو کوہستان ضلعی ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہیلو ہائے کے بعد وہ بری خبر سنائی اور کہا گلگت کا نوجوان لینڈسلاڈینگ کے زد میں آ کے شہید ہوگیا۔ میں نے نام پوچھا تو حماس حبیب بتایا جو گلگت امپھری کا رہنے والا ہے۔ اور لاہور یونیورسٹی آف منیجمینٹ سائینسز (LUMS) ی کا طالب علم ہے. بہت خوبصورت جوان ہے۔ اور ساتھ ہی بتا دیا "ان کے ساتھ ان کا بھائی بھی ہے. ہم میت منتقل کر ریے ہیں۔”
اب اصل مدے پہ آتا ہوں.
قراقرم ہائی وے پر اتنے حادثات کیوں ہوتے ؟ کیا ڈرائیوروں کی غلطی ہے؟ ایسا بلکل بھی نہیں. اگر تحقیق کریں تو پتہ چلے گا کہ نوے فیصد حادثات کی وجوہات حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی اور سڑک کی خستہ حالی ہے. ہائی وے دنیا کا آٹھواں عجوبہ ضورو کہلاتا ہے لیکن اس کی حالت خستہ ہے؛ حفاظتی تدابیر کا نام و نشان نہیں۔ شاہراہ ریشم کوہستان تا چیلاس سفر کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے. ایک انچ ادھر اودھر ہوئی تو گاڑی سیدھا ہزاروں میٹر نیچے دریائے سندھ میں جا گرتی ہے۔ وجہ چالیس سال پرانا روڈ جس کی صحیح مرمت اور دیکھ بھال نہیں ہوا۔
ایف ڈبلو او نامی ایک ادارہ ہے جو صرف بدعنوانی، دھونس دھاندلی اور مفت شہرت کے لئے بنا ہے۔ یہ دنیا کا واحد شاہراہ ہے جس کے ارد گرد کوئی حفاظتی دیوار نہیں۔ اب رہی سہی کسر بائی پاس روڈ نے نکالا ۔نہ کوئی ٹراما سنٹر بنا ہے اور نہ ہی موبائل ایمبولینس کا انتظام ہے جو کسی حادثہ کی صورت میں بروقت زخمیوں کو ابتدائی طبی اماد دے کر قیمتی جانوں کو بچا سکے.
داسو سے چلاس تک قرارقرم ہائی وے کے متبادل بائی پاس روڈ بن رہا ۔اس پہ کام جاری ہے ۔ٹھیکیداروں کی دانشمندی پہ غور کریں کہ ایک یا دو گھنٹے پہاڑ میں دھماکہ (بلاسٹنگ) کیا جاتا ہے. اسی دوران ہائی وے بند ہوتا ہے۔ جس وقت دحماکہ کے بعد ملبہ گرانے کا وقت ہوتا ہے قراقرم ہائی وے کو کھول دیا جاتا ہے تاکہ مسافر لینڈ سلاڈینگ کے زد میں آئیں۔
موجودہ صورت حال میں گلگت بلتستان کی جانب سفر کرنے کا مطلب موت کے منہ میں جانے کے برابر ہے۔
حکومت وقت سے گزارش ہے کہ کا غان ناران ہائی وے اور بابوسر ٹاپ پہ برف کو ہٹانے کا کام تیز کیا جائے اور اس کو سفر کے لے جلد از جلد کھولا جاے۔