تحریر: شیرزمان خان
گلگت میں راوی چَین لکھتا ہے،مگر جو لوگ علاقے کی سیاسی و مسلکی حرکیات سے واقف ہیں، اُنھیں اندازہ ہے کہ یہ اَمن میر اَنیسؔ کے آبگینوں سے بھی زیادہ نازک ہے۔ اِسے بھی ہمہ وقت خیال خاطرِ احباب چاہیے ، ورنہ ٹھیس لگی ہی لگی۔ ایک مذہبی رہنما کے متنازعہ بیان کے بعد سے گلگت میں ایک بار پھر بے یقینی کی فضا ہے۔ مسلکی تفرقے کی بندوقوں کو تیل دیا جارہا ہے اور مناظروں و مباہلوں کے مورچے کھد رہے ہیں۔
اب دو راستے ہیں۔ ایک تو وہ جوتقریباً چار دہائیوں سے ہمارا طریقہ ہے کہ منہ پر ڈھاٹا باندھ کر نفرت کے عَلم بلند کریں۔ اور دوسرا، گلگت کے نوید احمد کا رستہ کہ دلوں میں سُلگتی نفرتیں گرما گرم چائے کی حدت سے مار دی جائیں ۔ نوید کہتا ہے کہ ساتھ مل بیٹھ کر ایک پیالی چائے پی لینے سے دلوں کی رنجشیں دور ہوجاتی ہیں۔
نوید احمد
نوید نے کچھ عرصہ قبل خومر گلگت میں ایک ریستوران کھولا۔اس کا نہایت موزوں نام رکھا ’پیس پوائنٹ ریسٹورنٹ‘ یعنی جائے امن۔ اُس کا کاروبار ٹھیک ہی چل رہا ہے ، مگر دیگر کاروباری افراد کی طرح نوید کو محض یہ فکر نہیں کہ اُسے زیادہ سے زیادہ نفع کما نا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے ہم سب کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم کولہو کے بَیل کی طرح صرف اپنی ذات کے دکھ کے گرد گھومتے رہے تو شاید کچھ انفرادی ترقی کرلیں مگر ایک منتشر معاشرے میں ایسی ترقی ہرگز پائیدار نہ ہوگی۔ لہٰذا ، نوجوانوں کو اجتماعی ترقی کے رجحان کو پروان چڑھانا ہوگا ، اور یہ کہ پائیدار ترقی ایک پُر امن معاشرے ہی میں ممکن ہے۔
اگر ہم کولہو کے بَیل کی طرح صرف اپنی ذات کے دکھ کے گرد گھومتے رہے تو شاید کچھ انفرادی ترقی کرلیں مگر ایک منتشر معاشرے میں ایسی ترقی ہرگز پائیدار نہ ہوگی۔ لہٰذا ، نوجوانوں کو اجتماعی ترقی کے رجحان کو پروان چڑھانا ہوگا ، اور یہ کہ پائیدار ترقی ایک پُر امن معاشرے ہی میں ممکن ہے۔
نوید کی سوچ کو تحریک بننے کا موقع فوراً مل گیا۔ڈیڑھ ماہ قبل گلگت کے نواحی علاقے نلتر میں بے گناہ مسافر مرد و خواتین جب دہشت گردی کا شکار ہوئے تو علاقے میں ایک مرتبہ پھر فرقہ ورانہ فسادات کا خدشہ پیدا ہوا۔ سوشل میڈیا پر نفرتوں کی تجارت تیز تر ہوئی اور افواہوں اور پراپیگنڈے کی دُھند میں حقائق اوجھل ہونے لگے ۔ ایسے میں نوید گویا اَمن کی نوید بن کر سامنے آیا۔ اُس نے سوشل میڈیا کے ذریعے گلگت بلتستان کے نوجوانوں سے امن و امان کے فروغ کی اپیل کی۔ اس نے اُنھیں دعوت دی کہ آئیں فروعی اختلافات بُھلا کر مل بیٹھیں ، ایک پیالی چائے پئیں اوربات چیت کے ذریعے غلط فہمیاں دور کریں۔ نوید نے اِسے امن کی چائے کا نام دیا۔
نوید کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا دعوت نامہ
"نلتر واقعے کے بعد گلگت میں خوف کی فضا تھی۔ ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند تھے۔ میں نے اِس خوف کی فضا کو ختم کرنے کے لیے یہ پروگرام رکھا تھا۔”
نوید نے گلگت سے مجھے فون پر بتایا۔
"لیکن میں نے یہ شرط رکھی کہ مختلف مسالک کے لوگ گروپ کی شکل میں آئیں شیعہ، سُنی، اسماعیلی اور نوربخشی دوست ایک ساتھ آئیں اور مفت چائے اور سموسوں سے لطف اندوز ہوں۔”
سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیاایک اور دعوت نامہ
مقامی نوجوانوں نے اس اپیل کا جوش و خروش سے جواب دیا۔ مقررہ دن درجنوں نوجوان دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے اپنے دوستوں کے ہمراہ چائے میں شریک ہوئے۔ نفرتیں اور کدورتیں چائے کی شیرینی میں تحلیل ہوئیں۔ نوجوانوں نے قیام امن اور بقائے باہم کے فروغ کا عزم کیا اور پرجوش نعرے لگائے۔
دعوت کے شرکاء کا گروپ فوٹو جس میں اُن کا جوش و خروش دیدنی ہے
نوید کا کہنا تھا کہ اُ س کے پروگرام کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں اور نہایت مثبت ردِعمل ملا۔ اِس سے لوگوں کے دلوں سے خوف ختم ہوا، اعتماد بحال ہوا اور وہ اپنے معمول کی طرف واپس آنے لگے۔
اُس وقت نوید جیسے بہت سے باشعور نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر امن کے فروغ اور نفرتوں کی بیخ کُنی کے لیے آواز بلند کی۔ یوں ان انفرادی و اجتماعی کوششوں سے نلتر واقعے سے گلگت کے امن کو پارہ پارہ کرنے کی سازش ناکام ہوئی ۔
اب ایک مرتبہ پھر گلگت کی بربادیوں کے مشورے ہیں ۔ ایسے میں نوجوانوں کو اپنے آپ کو شعور سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ خوف ، بد امنی اور انتشار سے قوت اور اثررسوخ کشید کرنے والے مذہبی و سیاسی آلہ کار ہمیں ہمارے ہی خلاف استعمال نہ کرسکیں۔
ــــــــــــــــــــــــ
شیر زمان پیشہ ورانہ لحاظ سے تحقیق اور ابلاغ عامہ کے شعبوں سے وابستہ ہیں اور بام ِ جہاں کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
sherzamankhanfc@gmail.com