ہائی ایشیا ہیرالڈ رپورٹ
گوجال،چترال: پاکستان سمیت گلگت بلتستان اور چترال دو ہفتوں سےشدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں. جس کی وجہ سے گلیشرز کے پگھلاو میں اضافہ اور گلیشیرز میں بننے والے جھیلوں کے پھٹنے اور دریائوںمیں طغیانی آیی ہوئیی ہیں.
ہفتہ کی صبح ہنزہ گوجال میں گلیشر کی جھیل کے پھٹنے سے ایک سیاحتی مقام زد میں آگیا اور ایک ٹورسٹ کیمپ تباہ ہو گیا۔
چترال بالا میں ایک اہم سڑک دریا میں طغیانی کے باعث بہہ گیا ہے جس سے چترال بالا کے تین اہم وادیوں مستوج، بونی اور شندور کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے؛
گوجال کے گاوں پسو میں گلیشر جھیل کے پھٹنے سے سیلاب نے شاہراہ ریشم پر واقع ایک ٹورسٹ کیمپ سایٹ کو تباہ کیا ہے، شاہراہ ریشم پر ایک پل بھی خطرے میں ہے۔
ہمارے نمایٗندے سے بات کرتے ہوےٗ عوامی ورکرز پارٹی کے نوجوان رہنما اور سابق امیدوار براے قانون ساز اسمبلی حلقہ ہنزہ اصف سخی نے کہا کہ اج صبح بٹورہ گلیشر میں بننے والے جھیل کے پھٹنے سے سیلاب نے شاہرارہ ریشم سے متصل ایک خوبصورت سیاحتی مقام کو تباہ کیا اور تین دوکانیں اور کھانے پینے کی اسٹال اور رافٹ بھی سیلاب کی نذر ہوگئے۔ سیلاب کا دباو شاہراہ ریشم پر ایک پل پر ہے۔ اگر یہ دباو بڑھتا گیا تو پل کے ٹوٹنے اور شاہراہ ریشم کے کٹاوکا بھی خطرہ ہے۔
"ہم نے صبح سے ریسکیو ۱۱۲۲ اور ضلعی انتظامیہ کو مطلع کیا ہے لیکن تاحال ان کی طرف سے کویٗ مثبت جواب نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں نے بینکوں سے قرضہ لے کر سیاحت سے موسم کے حساب سے کاروبار شروع کئے تھے جو سیلاب کی نزر ہو گئے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو چا ہئے کہ وہ فوری طور پر ان نوجوانون کے نقصانات کا اذالہ کرے۔
گزشتہ دو ہفتوں سے پورے ملک سمیت گلگت بلتستان اور چترال شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں جس کے باعث گلیشرز کے پگھلنےاور دریاوں میں طغیانی سے سڑکوں اور ابادیوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ہمارے چترال کے نمایندے کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے شدید گرمی کے باعث دریائے چترال میں طغیانی سے ریشون کا ایک بڑا حصہ دریا بردہو چکا ہے۔ مقامی لوگوں نے متعلقہ حکام اور سیاسی قائدین کو دریا میں طغیانی سے سڑک کی کٹاؤ کے خدشے سے بارہا اگاہ کر چکے تھے، مگر اس مسئلے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور بروقت ریشون گاوں کے ساتھ حفاظتی بند باندھ کر دریا کا رخ دوسری جانب نہیں موڑا گیا.
جمعہ کی رات دریا میں شدید طغیانی کے باعث یہ سڑک دریا کی نذر ہوگئی. صبح مسافروں کی ایک بڑی تعداد جب ریشون پہنچے تو سڑک منقطع ہو چکا تھا اسلئے انہیں واپس لوٹنا پڑا.
گزشتہ ہفتے این ایچ اے (نارتھ) کے ممبر مکیش کمار نے ریشون کا دورہ کرکے سیلاب اور دریا کی طغیانی سے متاثرہ سڑکوں کی مخدوش صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔
2015 اور 2020 میں آنے والے شدید سیلابوں کے باعث ریشون میں کئی ایکڑ زرعی زمینیں، باغات اور قبرستان پہلے ہی سے دریا کی نذر ہوچکے تھے.لوگوں نے عوامی نمائیندوں، ایم اپی اے اور ایم این سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
پینے کا پانی کی شدید قلت
ریشون میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ گھمبیر صورتحال شکل اختیار کر چکا ہے۔ ریشون گزشتہ چند سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کے زیرِ اثر شدید سیلاب کی زد میں رہا ہے جس کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو آبپاشی اور پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
گزشتہ سال آنے والے سیلاب کی وجہ سے پانی کی نہریں اور پائپ لائنز متاثر ہونے کے بعد پینے کا صاف پانی حاصل کرنے میں علاقہ مکینوں کو دشواری کا سامنا ہے۔ سیلاب کی نذر ہونے والے پائپ لائنز کی بحالی کا کام اب تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
ریشون کے رہائشیوں کے مطابق صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بچوں اور ضعیف العمر لوگوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں جن کے سدِ باب کیلئے فوری طور پر پینے کے صاف پانی کی دستیابی کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
چند سال قبل آنے والے سیلاب نے ریشون پاؤر اسٹیشن کو بھی بہا کر لے گیا تھا جس کے بعد بالائی چترال میں بجلی کی ترسیل کا نظام مکمل طور پر متاثر ہوا۔ پاور اسٹیشن کی بحالی کا کام اب تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔