کالم: قطرہ قطرہ
تحریر: اسرارالدین اسرار
گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد تقریبا 106 ارب کے لگ بھگ حجم کا اپنا پہلا سالانہ بجٹ صوبائی اسمبلی میں 26 جون کو پیش کردیا ہے۔ اس دوران حزب اختلاف کے اراکین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دشمن اور غیر متوازن قرار دیا اور بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔
احتجاج کرنا اپوزیشن کا بینادی حق اور جمہوریت کا حسن ہے لیکن اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر ایسا لائحہ عمل تیار کرے جس سے عوام کو بجٹ کی منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں آگاہی ملنے کے علاوہ حکومت کی کوتاہیاں بھی بے نقاب ہوسکیں۔ اس کے لئے دنیا کے جمہوری معاشروں میں ایک طریقہ کار اپنایا جاتا ہے جس کو شیڈو بجٹ کہا جاتا ہے۔ اصل بجٹ حکومت بناتی اور اسمبلی میں پیش کرتی ہے۔ بجٹ پر بحث ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس عددی اکثریت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنا تیار کردہ بجٹ اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
حکومت کے اس عمل کو اور بجٹ کی خامیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے جمہوری ممالک میں اپوزیشن ماہرین کی مدد سے ایک شیڈو یا فرضی بجٹ بناتی ہے۔ شیڈو بجٹ کا موازنہ حکومتی بجٹ سے کرایا جاتا ہے۔ جس میں اپوزیشن عوام کو یہ بتاتی ہے کہ صحیح بجٹ ایسے بن سکتا تھا جب کہ جو بجٹ حکومت نے بنایا ہے وہ غیر منصفانہ اور غیر متوازن بجٹ ہے۔
شیڈو بجٹ سے حکومتی بجٹ کی کمزوریوں کی نشاندہی ہونے کے علاوہ اپوزیشن کی بجٹ بنانے کی صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے جبکہ مستقبل میں اپوزیشن کو حکومت ملنے کی صورت میں ان کی کیا ترجیحات ہوسکتی ہیں اس سے متعلق بھی عوام کو آگاہی ملتی ہے۔ اسی شیڈو بجٹ کی مدد سے ہی عوام مستقبل میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس کو نہیں دینا یے۔ ایک طرح سے اس کو اپوزیشن کی مستقبل میں حکومت سنھبالنے کی تیاری بھی کہا جاسکتا ہے۔
بعض دفعہ حکومتیں اگر سنجیدہ اور سمجھدار ہوں تو وہ اپوزیشن کے شیڈو بجٹ کی اہم اور عوام دوست تجاویز کو حکومتی بجٹ کا حصہ بناکر عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
شیڈو بجٹ بنانے کی بجائے اپوزیشن خالی مخالفت ہی کرتی رہے گی تو اس سے نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ملے گا، نہ شعور و آگاہی میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئی فائدہ ملے گا۔ بس رات گئ بات گئ کی مانند بجٹ پاس ہوگا کچھ دن بحث چلے گی پھر وہی فرسودہ ڈگر پر معاملات چلتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن کو بھی اپنی سیاست کا انداز اور طریقے کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بدلنا ہوگا۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ عوام کی اکثریت کو بجٹ کی اہمیت اور اس کی تیاری کے مراحل کے بارے میں معلومات نہیں ہوتی ہیں۔
بجٹ بنیادی طور پر کسی بھی ملک یا صوبہ کی سالانہ آمدن اور اخراجات کی میزانیہ اور تفصیلات کا نام ہے۔ اس تفصیل میں یہ بتایا جاتا ہے کہ پچھلے ایک سال میں ملک یا صوبے کے خزانے میں محصولات، زرمبادلہ اور دیگر ذرائع سے کتنی آمدن اکھٹی ہوگٗی ہے اور آئندہ ایک سال کے اندر کتنی آمدن حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔ پھر اس آمدن کو کن کن شعبہ ہائے زندگی پر کس مقدار میں خرچ کرنا ہے۔ بجٹ میں حکومت کی ان ترجیحات کا کھل کر اظہار ہوتا ہے جن پر حکومت زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنا چاہتی ہے۔ مثلا تعلیم کو حکومت کتنی اہمیت دیتی ہے اس کا اندازہ حکومت کی طرف سے تیار کردہ بجٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح صحت ،پینے کا صاف پانی، اشیائے خودونوش کی قیمتوں کا تعین سمیت دیگر تمام عوامی اہمیت کے حامل معاملات پر حکومت کی آئندہ مالیاتی سال میں کیا ترجیحات یونگی یہ سب بجٹ میں بیان کی جاتی ہیں۔ بجٹ میں عوام پر ٹیکس اور مہنگائی کی صورت میں کتنا بوجھ ڈالا جائیگا یہ سب اور اسی طرح کی دیگر تمام اہم باتوں کا بھی تفصیلی ذکر موجود ہوتا ہے۔
بجٹ کی سب سے اہم اور بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس میں یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی جوکہ بلواستہ یا بلا واسطہ ٹیکسوں کی شکل میں قومی خزانے میں جمع ہوتی ہے اس کا تقسیم کتنا منصفانہ اور عوم دوستی پر مبنی ہے؟ بہترین بجٹ وہ ہے جو عوام کے حال اور مستقبل میں خوشحالی کا ضامن ہو، عوام کے مسائل کو ترجیحات میں سر فہرست رکھا گیا ہو، معاشرے کے تمام طبقات ، مختلف آبادیوں اور جغرافیائی حصوں کو مساوات کی بنیاد فائدہ پہنچانے جیسی باتیں نمایاں ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر ترقیاتی اور غیر اہم شعبوں کو زیادہ اہمیت نہ دی گئ ہو۔
ماضی میں بجٹ بادشاہوں یا ڈیکٹیٹروں کی مرضی سے بنتا تھا لیکن جدید جمہوری معاشروں میں یہ اختیار عوامی نمائندوں یعنی منتخب اسمبلی کو دیا گیا ہے۔ جس کا آغاز برطانیہ سے ہوا ہے۔ منتخب نمائندوں کو یہ اختیار دینے کا مقصد یہ ہے کہ ملکی آمدن اور اس کے اخراجات عوام کی خواہشات اور ترجحات کی بنیاد پر طے ہونے چاہئے ۔
بہترین بجٹ وہ ہے جو عوام کے حال اور مستقبل میں خوشحالی کا ضامن ہو، عوام کے مسائل کو ترجیحات میں سر فہرست رکھا گیا ہو، معاشرے کے تمام طبقات ، مختلف آبادیوں اور جغرافیائی حصوں کو مساوات کی بنیاد فائدہ پہنچانے جیسی باتیں نمایاں ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر ترقیاتی اور غیر اہم شعبوں کو زیادہ اہمیت نہ دی گئ ہو۔
اگر بجٹ میں عوام کی خواہشات اور ترجحات کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے تو یہ اختیار عوامی نمائندوں کے پاس ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جمہوریت میں حکومت کرنے کے جو تمام اختیارات عوامی نمائندوں کے پاس ہوتے ہیں ان میں سے سب سے اہم اور انتہائی اہمیت کا حامل اختیار بجٹ سازی کا ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو بجٹ سازی کے بارے میں شعور و آگاہی فراہم کرے اور اس سے متعلق سکولوں کے نصاب میں ایک چیپٹر شامل کیا جائے تاکہ بجٹ سازی کی اہمیت سے لوگ آگاہ ہوسکیں۔ ہر سال بجٹ سازی سے قبل حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھر پور مشاورت کرے تاکہ ایک منصفانہ، شفاف اور متوازن، عوام دوست اور مسقبل کی خوشحالی کا ضامن بجٹ بنایا جاسکے۔
اسرارالدین اسرار گلگت بلتستان میں حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ وہ سینٗر کالم نگار ہیں اور سماجی و انسانی حقوق کے موضوعات پر باقاعدگی سے ان کی تحریریں بام جہان کےصفحات پر ان کی تحریریں شایعٗ ہوتے ہیں۔