Baam-e-Jahan

برگیڈئر اقبال — عاجزی اور خلوص کا پیکر

ہدیہ تہنیت

تحرير : ریاض اکبر


برگیڈئر اقبال بھی چل بسے- انہیں زندگی میں بہت شہرت اور عزت نصیب ہوئی۔  وہ سمائر کے پہلے اعلٰی افسر تھے اس لیے  اُنہیں شاندار شہرت ملی، اور اپنے اخلاق سے بے پناہ عزت اور محبت کمائی۔ قدیم سمائر  سے جدید سمائر کا سفر  چند انقلابات کی مرہونِ منت ہے اوراُن میں سے ایک انقلاب سرکاری تعلیم کا آغاز ہے۔ اقبال صاحب اِس انقلاب کے تابندہ ترین ستارے ہیں۔سرکاری سکول سے تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت سے  فوج میں کمیشنڈ آفیسر بنے۔ قدیم اور جدید سمائر کے سنگم پر وہ ترقی کے ایک خوبصورت مشعلِ راہ تھے۔  وہ علاقے میں کامیابی اور افسری کا استعارہ بنے اور سمائر کا غرور بھی ۔ 

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سمائر کے لوگوں میں مضبوط قبائلی عصبہَ ہے۔ شدید قومی فخر سے سرشار ہیں۔ نگر کے کسی اور گاوں میں اس درجے کا عصبہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ نظریہ عصبہ جلیل القدر عرب فلاسفر  اور مفکر ابنِ خلدون نے پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ کسی بھی تہذیب کا عروج اور زوال عصبہ کی مضبوطی اور کمزوری ہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ نظریہ آج تک مغرب کے یونیوستٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔  سمائر کے ارتقا میں اقبال صاحب کی کامیابی نے سمائر کے عصبے کو توانا کیا جس کے بعد سمائر میں ترقی کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا ہے۔ اور انشاللہ چلتا رہے گا۔ سمائر والے اس چیز کو محسوس کرتے ہیں  اسی لئے انہیں اتنی عزت اور محبت دی۔

سمائر کے لوگ اس محبت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ ایک معصومانہ انداز جو مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر گاوں والا اپنے پسند کے رینک سے یاد کرتا ہے۔ گو کہ وہ بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے، انہیں بہت سےلوگ ابھی تک کیپٹن اقبال کہتے ہیں ۔  پھر ایک طبقہ انہیں میجر اقبال کے نام سے یاد کرتا ہے۔ ایک گروہ کے ہاں وہ کرنل ہیں، میری بھی سوئی کبھی کبھی اسی پر اٹکتی ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ انہیں بڑے فخر  سے برگیڈئر کہتے تھے اور کہتے رہینگے۔

اقبال صاحب کی زندگی کی کہانی سمائر کی تاریخی اور معاشرتی تناظر  میں بتانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن کی شہرت اور عزت صرف اور صرف اِن عوامل کی بِنا پر ہے، بلکہ اُن کی عزت اُن کی ذاتی خصلتوں کی وجہ سے تھی۔  شہرت انہیں اگر عہدے سے ملی تو عزت اپنے اخلاق  اور دوسروں کی خدمت سے پائی۔ وہ انگنت لوگوں کے کام آئے۔ 

اقبال صاحب ہینڈ سم  اور  ویلکمنگ تھے۔ فیر کلر اور لائٹ براون آنکھیں، سینہ ایسا چوڑا اور کھلا ہوا کہ جیسے دنیا کو بخوشی گلے ملنے کا دعوت دے رہا ہو۔ شکل و شباہت سے کسی فارس یا ترک سلطنت کے شہزادے معلوم ہوتے تھے۔  دلکش مسکراہٹ اور انتہائی  شائستہ sense of humor رکھتے تھے۔  آواز دھیمی لیکن purposive ہوتی تھی۔ بہت ہی خوش لباس اور خوش خوراک تھے۔

کسی عزیز کی موت پر ماتم سے زیادہ اُن کی زندگی کا جشن منانے کا قائل ہوں۔ اور  جشن ایک ایسی ہی زندگی کا ممکن ہے جو بھر پور طریقے سے جی ہوئی ہو۔ ایک ایسی زندگی جس میں آپ کو خلقِ خدا سے عزت اور پیار نصیب ہوا ہو۔ ایک ایسی زندگی جو اللہ تعالٰی کی تعلیمات اور اہل بیتِ رسول کے عشق میں ڈوب کر جی ہوئی ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ اقبال صاحب نے ایک ایسی ہی زندگی گزاری ہے۔ اسی لئےہم اللہ سے گلہ بھی نہیں کرتے کہ اُنہوں نے اقبال صاحب کو اتنی جلدی اپنے پاس بلا لیا۔ بقول فیض:

اِسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے

تری فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

شاید ان کی سب سے بڑی خوبی عاجزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آخری دم تک سمائر میں غیر متنازعہ رہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عہدہ یا دولت کے ملنے سے لوگوں میں گھمنڈ آجاتا ہے اور اس کے عتاب میں سب سے زیادہ اُنہیں کے علاقے کے لوگ آتے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں کو اپنی دولت یا عہدے سے مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔ پھر تمام عقلمندی اور قابلیت کا دعویٰ کر کے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے ہی لوگوں پر اور زیادہ رعب ڈال سکیں۔ سمائر میں ایسے عہدیدار اور دولت مندوں نے یہ والا کیسٹ چلانا چاہا تو سمائر کے باشعور عوام نے ایسے افراد کو مسترد کردیا۔ یہ قوم ہیرے اور پتھر میں فرق کرنا جانتی ہے، اسی لئے اس ہیرے کی ناگہانی موت نے سمائر والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ان کے موت کی خبر مجھے امریکہ میں ملی۔ اس وقت میں اور ان کا بیٹا حسن اور نگر کے ایک اور قابل فخر سپوت ڈاکٹر یاور جو کہ امریکہ میں مستقل مقیم ہیں کے پاس تھے۔  تقدیر بھی عجب کروٹیں  لیتا ہے کیونکہ ٹھیک اسی لمحے ہم ایک شاپنگ مال میں اقبال صاحب کیلئے ایک کوٹ خرید رہے تھے۔ مجھے میرے چھوٹے بھائی نے فون پر اقبال صاحب کے گزرنے کی اطلاع دی۔ ہمارا پہلا رد عمل بے یقینی کا تھا۔  ڈاکٹر صاحب اور میرے لئے یہ مرحلہ مشکل تھا کہ کیسے حسن کو اس المناک خبر سے آگاہ کریں۔ کسی دوست کو ان کے جوان اور زندگی سے بھرپور باپ کے اچانک موت کا کوئی کیسے بتا سکتا ہے؟ الفاظ کیا ہوں؟ انداز کیا ہو؟ چہرے کے تاثرات کیسے ہوں؟ آواز حلق سے کیسے نکلے؟ خصوصاً جب آپ گھر سے ہزاروں میل دنیا کے پچھلے رخ پر ایک انجان برِ اعظم میں ہوں؟ جہاں آپ کا سوائے ایک دوسرے کے کوئی نہیں ہے؟ اتنا تو احساس تھا کہ بری خبر ہر حال انداز اور آواز میں بری ہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی نسخہ ایسا نہیں ہے کہ اتنی غم ناک خبر کو اچھا بنا دے۔ اس لمحے بہت بھاری پن کا احساس ہورہا تھا کیونکہ میں بلکل بھی نہیں چاہتا تھا کہ حسن کو میرے منہ سے یہ خبر ملے۔ مجھے نہیں پتہ ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں کیا چل رہا تھا لیکن ان کے چہرے پر تشویش کے آثار غالب تھے۔ یہ نگر کا روایتی باپ بیٹے والا رشتہ بھی نہیں تھا۔ بلکہ باپ بیٹے میں بہت قربت تھی اور دوستوں کی طرح ایک دوسرے کی رفاقت سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔  دکھ تو ہم سب کو تھا، لیکن اُن کا دکھ اور ہمارا دکھ کیسے برابر ہو سکتا ہے؟

ذاتی طور پر بھی اقبال صاحب کے  حسن سلوک کا معترف ہوں۔ بچپن میں انہوں نے میرے والد کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے میرے تعلیم کا ذکر کیا جو مجھے بہت اچھا لگا اور ابھی تک نہیں بھولا ہوں۔ پھر جب میں میٹرک کے بعد لاہور تعلیم کیلئے گیا تو انہوں نے مجھے شہر اور کالج سے روشناس کرانے کیلئے اپنے دو ماتحت افسران بھیجے جنہوں نے اپنی گاڑی میں مجھے لاہور جیسے گنجان آباد شہر سے آشنائی کرائی۔

سن ۲۰۱۹ میں جب میں نے اپنی ماسٹرز مکمل کی تو وہ میرے کانوکیشن میں شرکت کیلئے اپنے مختصر دورے سے وقت نکال کر نیو یارک سے واشنگٹن کاتھکا دینے والا، طویل اور مہنگا سفر طے کیا۔ صرف اس لئے کہ اس خوشی اور مسٌرت کے موقع پر مجھے میرے فیملی کی کمی کا احساس نہ ہو کیونکہ وہاں ہر کوئی اپنی فیملی کے ساتھ تھا۔  یہی ان کی عاجزی تھی کہ وہ میرے جیسے ایک مسافر کی خوشی دو بالا کرنا ضروری سمجھے۔   یہ مہربانی مجھے یاد رہے گا۔ اور ایسے بہت ساروں نے مجھے کہانیاں بتائیں ہیں جن میں اقبال صاحب نے اُن پر مہربانیاں کیں ہیں۔

 یہ ہماری طرف سے ہدیہ ِشکر یہ ہے۔ زبان پر اُن کیلئے ہمیشہ حرفِ دعا جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں  کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔


ریاض اکبر فلبراٗیٹ اسکالر ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے جارج ٹاون یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی سے جمہوریت اور حکمرانی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصیل کی۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔ان کی تحریریں اب ہاییٗ ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہان کے صفحات پر شایع ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں