Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنماء منظور پروانہ کی داسو سے جبری گمشدگی

ریاستی جبر

سیاسی رہنماوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا سوشل میڈیا پر شدید رد عمل، واقعے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا؛ اسکردو میں آج یادگار چوک پر جمعہ کی اجتماع کے بعد مظاہرہ


بام جہان رپورٹ

انجینٗر منظور پروانہ کی جبری گمشدگی کے خلاف کھرمنگ میں مظاہرہ ہو رہا ہے۔ فوٹو: نجف علی

گلگت ، جولاییٗ ۲:  گلگت بلتستان کے ایک معروف قوم پرست رہنماء اور لکھاری انجنئیر منظور حسین پروانہ کو   جمعرات  کے روز داسو کوہستان سے  جبری طور پر غایٗب کیا گیا ہے۔ ا ن کے بارے میں ۲۴ گھنٹہ گزرنے کے باوجود معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ ان کو کن   وجوہات کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ ان کے دوست، اور سیاسی کارکن ان کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔

انجینئر منظور پروانہ داسو پاور پراجیکٹ په کام کر رہے ہیں۔


ان کے بیٹے  انچن سینگھے نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا ہے کہ  ان کے والد آج صبح داسو کوہستان سے لاپتہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ سے اپیل کیا ہے کہ وہ  اس کا نوٹس لیں اور ان  کے والد کو باعزت  بر آمد کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

 ذرایع کے مطابق کوہستان پولیس نے منظور پروانہ، چیٗرمین گلگت بلتستان یوناییٹڈ موومینٹ اور سابق چیٗرمین بلتستان اسٹوڈینٹس فیڈریشن،کو جمعرات کی صبح داسو سے حراست میں لیاہے۔

پہلے سوشل میڈیا پہ کہا گیا کہ انہیں دیامر پولیس نے گرفتار کیا ہے ۔ ان سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کوہستان پولیس سے اس کی تصدیق کے ییٗے رابطہ کرنے کی کوشیش کیا گیا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

بظاہر ان کے خلاف کوییٗ الزام نہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پہ  انسداد  دہشت گردی کے قانون کا  گلگت بلتستان میں بے جا استعمال کے اوپر تفصیل سے لکھا تھا۔ اور اسکے غلط استعمال کو  حدف تنقید  بنایا تھا۔

منظور پروانہ داسو پاور پرہجیکٹ سے وابستہ ہیں۔ فایٗل فوٹو

انجیئر منظور پروانہ کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

 کھرمنگ عوامی ایکشن کمیٹی اور سول سوسائٹی بلتستان نے  ان کی گرفتاری کی خبر سن  کرکھرمنگ اور بلتستان کے دیگر علاقوں  میں  مظاہرے کیے اور احتجاج  کیا۔ انہوں نے  حکومت کو  خبردار کیا  ہے کہ اگر  ان کو جلد رہا نہیں کیا  گیا تو پورے گلگت بلتستان مییں  احتجاج کریں گے۔

نوجوان وکیل اور سوشل میڈیا کارکن آصف ناجی نے  پروانہ کی  گمشدگہ پر رد عمل دیتے ہویےٗ کہا کہ    منظور پروانہ جیسے کارکنوں کا جرم ان کی امن پسندی اور حق گویی ہے۔  

ناجی نے کہا کہ گلگت بلتستان سیاحوں کیلئے سیر گاہ، غیر مقامیوں کیلئے چرا گاہ اور گلگت بلتستان کے باسیوں کیلئے قید گاہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان  کے لوگوں سے جینے  کا حق  مت چھینیں، ان کی آواز مت دبایٗیں ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ منظور پروانہ کو  فل فور رہا  کیا جاے۔

عوامی وکرز پارٹی کے نوجوان رہنما آصف سخی نے رد عمل دیتے ہویے کہا کہ انجینئر منظور کا جرم وہی ہے جو  بابا جان، علی وزیر، سینگار نوناری جیسے ذی شعور، انسان دوست اور مزاحمتی سیاست کرنے والوں کا ہے۔ وہ اپر امن طریقے سے اپنے لوگوں کی بنیادی حقوق  کے لیے جدوجہد کرتے ہیں  اس لیے انہیں سزا دی جاتی ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ نوجوانوں کو دیوار سے نہ لگاییٗں اس کے بہت خظرناک نتایج نکلیں گے۔

حکمرانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیےٗ  اور  ماضی کی  غلطیوں کو نہ دہرایں ۔

نجف علی سابق ازاد امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی اور سماجی رہنما سید محمد انور کاظمی نے منظور پروانہ کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہویے حکومت سے مطالبہ کیا کیہ انہیں فورا بازیاب کیا جاےٗ اور ان کا نام شیڈول ۴ سے ہٹایا جاےٗ۔

انہوں نے کہا کہ اج جمعہ کی نماز کے بعد اسکردو یادگار چوک پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جایٗگا۔

منظور بلتی نے انجینئر منظور پروانہ کی بلا جواز گرفتاری کی شدید مذمت کیں اور  اسے مظلوموں کی توانا آواز کو دبانے کی کوشش  قرار دیا۔

ایک سوشل میڈیا صارف  لیاقت علی نے سوال کیا ہے کہ  ” یہ عجب المیہ ہے ایک طرف پاکستان ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ماتم کرتے نظر آتا ہے دوسری طرف گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی عروج پر ہے جس کی تازہ مثال بغیر کسی جرم کے کئی پرامن سیاسی کارکنوں کا شیڈول  فور کی لسٹ میں شامل کرنا اور حسنین رمل کی گرفتاری کے بعد منظور پروانہ کی گرفتاری ہے۔

انہوں نے  مطالبہ ہے کہ انجنیئر منظور پروانہ اور حسنین رمل کو فوری  اورغیر مشروط  طور رہا کریں ۔

سیاسی پس منظر

منظور پروانہ داسو ڈیم پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ وہ  ۸۰ کی دہاییٗ سے زمانہ طالب علمی سے گلگت بلتستان کے  قومی اور آیٗنی  حقوق کے لیےٗ  جدوجہد  کر رہے ہیں  ۔انہیں اسکردو کرگل روڈ کھولو تحریک چلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا.

وہ ایک رسالہ ماہنامہ کرگل  کے نام سے شایع کرتے تھے۔ جس پر گلگت بلتستان کی اس وقت کی حکومت نے ۹۰ کی دہاییٗ میں  پابندی لگا دی  اور  مقامی  اخبارات  میں ان کے  کالم کی اشاعت پر  بھی پابندی  عاید کیا ۔ انہوں نے 2009 کے الیکشن میں بھی حصہ لیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت  کے دور میں  انہیں  اپنے سرزمین  اور اس کے باسیوں  کیلئے آواز بلند کرنے، پرامن سیاسی تحریک چلانے کے جرم میںان کا نام انسداد دہشت گردی کے شیڈول  فور کی لسٹ میں شامل  کیا گیا۔ اور گلگت بلتستان سے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی. انہوں نے ۲۰۲۰  کے الیکشن میں بھی حلقی روندو اسکردو سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا جس کی اجازت انہیں نہیں ملی تو علاقے کے مفاد میں انہوں نے راجہ ناصر، جو وزیر صحت و ثقافت ہیں، کی حمایت کیں۔

وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک ہیں۔

پروانہ گلگت بلتستان کے  حقوق کے حوالے سے  اقوام  متحدہ کے 13 اگست 1948  کے قرار داد پر عملدرآمد  کا  مطالبہ کرتے  رہے ہیں   ، خطے میں طاقتور بیورکریسی کو لگام دے کر اختیارات عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے  اور وسایل پر  مقامی لوگوں کی ملکیت کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں