Baam-e-Jahan

اسکردو:صوباییٗ وزیر کے محافظ کی مبینہ فایٗرنگ سے نوجوان ہلاک

سیاسی کارکن کا قتل

بام جہان رپورٹ


اسکردو، جولاییٗ ۴: اتوار کے روز کچورہ اسکردو میں ایک معروف سیاسی و کاروباری شخصیت حسنین منڈوق  کو پولیس  کے ایک اہلکار نے فائرنگ کر کے مار دیا۔ حسنین بلتستان اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے رکن رہے ہیں۔

پولیس نے پہلے زمین کے تنازعہ کو اس قتل کا سبب قرار دیا ، بعد میں کہا گیا کہ متوفی اور ملزم کے درمیان معمولی تلخ کلامی ہویٗی جس پر پولیس اہلکار جو کہ صوبایٗ وزیر سلیم کے محافظ ہیں، نے فائرنگ کیا۔ پھر کہا گیا کہ قاتل ذہنی مریض ہے۔ مگر اصل حقائق اب تک  معلوم نہیں ہو سکا۔

اس واقعہ کی خبر سوشل میڈیا پہ پھیلنے پر شدید رد عمل سامنے آیا۔

سوشل میڈیا صارفین اور سیاسی کارکنوں نے مطالبہ کیا ہے کی ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے  تحت دفعات مقدمہ چلانا چاہیے۔

روندو سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنما نجف علی نے اس پورے واقعہ پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوےٗ بام جہاں کو بتایا کہ ا سکردو پولیس اس سلسلے میں خاموش ہے ، چونکہ قاتل وزیر سلیم کا گن مین تھا ۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر وزیر سلیم اور حسنین کے درمیان کسی تلخ کلامی پر یہ واقعہ پیش آیا ہے تو وزیر سلیم قصور وار ہے ، اگر  ملزم  اور حسنین کے درمیان کوئی تلخ کلامی نہیں ہوییٗ ہے اور اگر  قاتل کوئی ذہنی مریض ہے تو اسے  پولیس میں بھرتی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے اور ایسے ذہنی مریضوں کو وزیر کا گن مین  تعینات  کرنے والوں کو بھی سخت سے سخت سزا ملنا چاہیے ۔

نجف علی جنہوں نے پچھلے سال گلگت بلتستان اسمبلی کے امیدوار کے طور پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا نے سوال کیا کہ "خدا نخواستہ اگر یہ قاتل کسی اہم تقریب میں کسی اہم جلسے میں فائرنگ کھول دیتے تو کتنے جانیں چلی جاتی ،  کینونکہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو شہید کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ معمولی ذہنی حالت پر شک ہونے والے پولیس کو کسی اہم جگہ  پر تعینات نہیں کریں گے ، سمجھ نہیں آتا ایسے مشکوک شخص کو پولیس میں بھرتی کیوں کیا اور اگر بھرتی کیا گیا تو  اسے گن مین کیوں  رکھا گیا تھا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ  پولیس  اہلکار کے خلاف انسداد دہشتگری ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور تمام مشکوک پولیس جوانوں کا دوبارہ ذہنی و نفسیاتی معایٗنہ  کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر سے کروایا  جائے تاکہ آئندہ کوئی بے گناہ کسی پولیس کے ہاتھوں قتل نہ ہو ۔

نجف نے اسکردو پولیس سے کہا ہے کہ وہ پریس کانفرنس کے ذریعے اصل حقائق سے آگاہ کریں اور حسنین منڈوق کو انصاف فراہم کریں اور گلگت بلتستان کے عوام میں پائے جانے والے بے چینی اور تشویش کا خاتمہ کریں ۔

سیاسی و سماجی کارکن اور نوجوان وکیل آصف ناجی  نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا ہے کہ  ایک طرف حکومت فیس بک پوسٹ پر  اور پر امن  احتجاج پر سیاسی وانسانی حقوق کے كاركنوں  پر اے ٹی اے لگاتی ہے مگر ایک  پر آمن انسان کو اس کے خاندان کے سامنے بے دردی سے گولی مارا گیا لیکن ملزم کے اوپر دہشت گردی کے دفعات نہیں لگے۔ ان کا کہنا ہے کہ”تمہارے ہاتھ میں بندوق اور جسم پر وردی ہے اور سر پر نام نہاد وزیر کا ہاتھ ہے۔

اگر اس قاتل پر اے ٹی اے نہیں لگا تو ثابت ہو جائے گا تم محافظ نہیں قانون نافذ کرنے والے نہیں بلكی فون كالز پر اشاروں پر چلنے والے ہو۔ آصف ناجی نے اپنے حوالے سے لکھا ہے کہ "میرے اوپر اے ٹی اے کا جھوٹا کیس خواتین کے احتجاج پر بنانے کیلئے کچورا تھانے کا انتخاب ہوا جب کہ کیس سٹی تھانے کا تھا "۔

منظور پروانہ داسو میں تھے ایف آئی آر تهوار تھانہ میں کٹی مگر بنایا کچورا تھانہ میں۔

اب حسنین مونڈوق بی ایس ایف کے سینئر کارکن اور علاقے کے معروف کاروباری اور سماجی شخصیت کا دن دھاڑے قتل کچورا تھانے کی حدود میں ہوا ہے اور مبینہ قاتل پولیس والا ہے۔ یہ واقعہ کھلی دہشت گردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کی حکومت اکثر بے گناہوں پر اے ٹی اے لگاتی ہے۔ اب اصل دہشت گردی ہوئی ہے اب دیکھنا یہ ہے حکومت کونسے دفعات لگاتی ہے۔ لیکن اس واقعے پر بطور وکیل، سیاسی ورکر اور مرحوم کے ساتھی کے ہم نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں