ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
آج کل واخان خبروں میں ہے۔ افغانستان کے مشرق میں چین، تاجکستان اور پاکستان کی سرحد پر واقع واخان کی پٹی 1993سے خبروں کا موضوع بنتی آرہی ہے۔ افغانستان کے نقشے پر واخان کی سرحدی پٹی کسی جانور کی زبان یا دم کی طرح باہر نکلی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے انگریزوں نے اس کو افغانستان کی زبان کا نام بھی دیا ہے۔ افغانستان کی دُم بھی لکھا ہے۔ جو چا ہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق افغان جنگجوؤں کے مختصر قافلے نے ولایت بدخشان کی ولسوالی واخان میں ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ افغان فوجیوں نے مزاحمت نہیں کی، واخان کے عوام نے جنگجووں کا خیر مقدم کرتے ہوئے نعرہ تکبیر اور امارت اسلامی کے نعرے لگا ئے۔ سفید جھنڈے لہرائے۔ 1994ء میں واخان کے لوگوں نے احمد شاہ مسعود کے جنگجوؤں کے حملوں سے تنگ آکر چترال اور گلگت کی طرف ہجرت کی تھی۔ یہ لوگ مہاجرین کے کسی بڑے گروپ کا حصہ نہیں بنے اور حالات معمول پر آتے ہی وطن واپس چلے گئے۔
افغان جنگجووں کی طرف سے واخان پٹی پر تازہ ترین قبضے کی باز گشت امریکی اور برطانوی میڈیا میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان، بھارت اور چین کے ذرائع ابلاغ نے بھی اس کو بے حد اہمیت دی ہے۔ اس اہمیت کی متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ 6000 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے اس علاقے کی وخی آبادی صرف 15،000ہے۔ تاریخ میں اس آبادی نے کبھی کسی حملہ آور کی مزاحمت نہیں کی۔ البتہ واخان کے شمال اور شمال مشرق کی طرف پامیر یعنی بامِ دنیا کی کرغیز آبادی کو جنگجو ہونے کی شہرت حاصل ہے۔ 1979ء میں شوروی انقلاب اور تاجکستان کی طرف سے خطرہ درپیش ہونے پر پامیر کے لوگوں نے گلگت اور چترال کے راستے ہجرت کی۔ پامیر کے خان رحمان قل کی سربراہی میں کرغیز مہاجرین اپنے مال مویشیوں کے ساتھ راولپنڈی پہنچے جہاں سے ترکی نے دیوہیکل جہازوں میں ان کو مال مویشیوں سمیت اُٹھایا اور ترکی میں مستقل آباد کیا۔
کارا کرغیز قبیلے کے ایک سردار عبدالغنی نے حامد کرزئی کے زمانے میں واپس آکر اپنی جا ئیدادوں اور چراگاہوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کیا۔ کرزئی کی حکومت میں بدخشان سے شاہ منصور نادری کو کابینہ میں جگہ دی گئی تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بدخشان اور واخان کی آبادی اسماعیلی مسلک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ پامیر کے کرغیز حنفی فقہ کے پیروکار ہیں، عرف عام میں بھی حنفی کہلاتے ہیں۔ واخان کی لمبائی 360کلو میٹر جبکہ چوڑائی کم سے کم 15 اور زیادہ سے زیادہ 60 کلومیٹر ہے۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے 10ہزار فٹ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے زراعت کے لئے موزوں نہیں۔ محدود پیمانے پر صرف جو کی کاشت ہو تی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں خوش گاو یعنی یاک اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالے جاتے ہیں۔ وسیع وعریض ایلاق (چرا گاہ) سے بھر پور استفادہ کیا جاتا ہے۔ 1893ء میں واخان اس وقت خبروں میں آیا جب ہندوستان کی برطانوی حکومت، زار روس اور افغان بادشاہ امیر عبد الرحمن خان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت واخان کی پٹی کو بفر زون یعنی غیر جانبدار علاقہ قرار دیا گیا۔
اس وجہ سے تمام فریق اس علاقے سے بحفاظت گذر سکتے تھے۔ اس سے پہلے واخان کو سِلک روٹ یعنی شاہراہِ ریشم کی وجہ سے تاریخی شہرت حاصل تھی۔ چینی تاجروں کے کاروان تاش قرغن سے واخجیر اور سومہ تاش کے راستے واخان میں داخل ہوتے تھے اور گاز خان کے مقام پر آب پنجہ کو عبور کرکے دریائے آمو کے طاس سے ہوکر درواز اور روشان کے راستے مغرب کا رخ کر تے تھے۔
موجودہ حالا ت میں واخان کی پٹی اگرخانہ جنگی سے محفوظ رہی یا کابل کی کسی مستحکم حکومت کا حصہ بنی تو چین، پاکستان، تاجکستان کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ بین الاقوامی تجارت کا ایسا ہی راستہ بنے گا جیسا ماضی میں تھا۔ اگر خدا ناخواستہ واخان کو خانہ جنگی کی نذر کر دیا گیا تو تاجکستان اور پاکستان کے لئے اپنی سرحدات کو محفوظ بنانا مشکل ہو جا ئے گا۔
واخان کے خطے میں ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں اب سرحدی باڑ نہیں لگائی گئی۔ ہنزہ اور چترال کے راستے دراندازی ہوتی رہے گی۔ واخان کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ خوروگ میں قائم یونیورسٹی آف سنٹرل ایشا تک ہمارے طلبہ اور اساتذہ کی رسائی ممکن ہو جائیگی. نیز تاجکستان اور ترکمنستان سے بجلی کی لائن اور گیس کے پائپ لائن لانے میں سرحدی رکاوٹ ختم ہوگی۔ اللہ کرے کہ واخان کی پٹی آنے والی خانہ جنگی سے محفوظ رہے۔
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی مشہور و معروف ادیب اور مورخ ہیں۔ ایک قومی اخبار سے بطورِ کالم نگار منسلک ہیں۔