تحریر: اظہر الدین
ایک افریقی کہاوت ہے, جب وہ[ نو آبادیاتی حکمران] آئے تو ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں۔ جب ہماری آنکھیں کھلیں تو ہمارے پاس بائبل تھی اور ان کے پاس زمینیں۔
یہ کہاوت گلگت بلتستان کے موجودہ حالات پر صادق آتا ہے۔
نوآبادیاتی قبضہ گیری اور ذہنی غلامی کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ ہنزہ میں سانحہ عطا آباد کے بعد مقامی متاثرین، جن کی زمینیں عطا آباد جھیل کے پانی میں ڈوب گئے، نے جب جھیل کے کنارے چھوٹے موٹے کیبن اور ریڑھی لگا کر روزی کمانا چاہا تب اس ریاست پاکستان اور اس کے آلہ کاروں نے زبردستی ان کو وہاں سے نکال دیا یہ کہہ کر کہ جھیل کے کنارے کوئی ہوٹل نہیں بنایا جا سکتا۔
اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مقامی سرمایہ کار اُسی جگہ بڑے بڑے ہوٹل بنا کے اربوں روپے کما رہے ہیں۔
تازہ ترین خبر کے مطابق، کل ہاشو گروپ آف کمپنیز نے بھی سب سے بڑا ہوٹل کی تعمیر کا اعلان کیا اور ایک مفاہمتی دستاویز پر اسلام آباد میں دستخط کئے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد معززین اور کمونٹی لیڈروں نے اور ہنزہ کے سہولت کاروں نے جو تقریب میں موجود تھے، تالیاں بجا رہے تھے۔
اور اس بات کا بھی اعلان کر رہے تھے کہ جہاں ہاشو گروپ آف کمپنیز اربوں روپے کمائے گا وہیں ہنزہ کے نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع بھی فراہم کریں گا مثلاً ویٹر،باورچی ،سیکورٹی گارڑ ڈش واشرز، ہاوس کیپر وغیرہ وغیرہ۔
ارے کمبختو! زمین تمہاری، وسائل تمہارے پھر بھی غلامی کرنے پر تلے ہو اور اپنے ساتھ ہنزہ کے نوجوانوں کو بھی اس گند میں دھکیلنا چاہتے ہو۔
کیا ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ ان کو این او سی کس نے دیا اور کس قانون کے تحت دیا؟ زمین کس نے بیچا؟
کیونکہ ہم جانتے ہے وہاں سہولت کار اور کرائے کے ٹٹو مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ یہ کام کرنا انکے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
آخر میں ہنزہ کے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ آپ ہی آخری امید ہیں۔ آئیں آگے بڑھے، اپنے زمین کی حفاظت کریں، اپنے وسائل کی حفاظت کریں۔ اور ماحولیات کو تباہ ہونے سے بچائیں
کل کو ایسا نہ ہو جو رہنے کے لئے گھر ہمارے پاس بچے ہیں وہ بھی چھین جائیں اور ہمیں اپنے ہی گھروں میں کرایہ دے کر غلاموں کی طرح رہنا پڑیں۔
اظہر الدین ایک نوجوان طالب علم کارکن ہیں۔ وہ این ایس ا یف گلگت بلتستان سندھ زون کے سیکریٹری اطلاعات ہیں