رپورٹ: گل حمید فاروقی
چترال گول نیشنل پارک میں جمعرات کے روز اچانک آگ بڑھک اٹھی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے جنگل کو اپنے لپیٹ میں لیا۔ مقامی لوگوں اور اہلکاروں نے ریسکیو 1122 کو اطلاع دی اور ان کے اہلکار دو گھنٹے مسلسل سفر کرکے جنگل پہنچے اور آگ کے ارد گرد بلاک بنا کر انہیں مزید پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ان کے ساتھ محکمہ جنگلات کا عملہ اور مقامی لوگ بھی رضاکارانہ طور پر شامل رہے۔
ریسکو کے پریس ریلیز کے مطابق ان کے جوان ابھی تک جنگل میں موجود ہیں اور آگ پر قابو پانے کی کوشش کرررہے ہیں تاکہ یہ مزید علاقوں اور قریبی آبادی تک نہ پھیلے۔
چند دن پہلے چمرکن کے جنگل میں بھی آگ لگی تھی اور اس کو بجھانے کی کوشش میں محکمہ جنگلات کے ایک ملازم ہلاک ہوا تھا۔
یاد رہے کچھ عرصہ پہلے ارندو، اوسیک اور دومیل کے جنگلوں میں بھی آگ لگنے سے کافی نقصان ہوا تھا۔ مگر ابھی تک محکمہ جنگلات کے پاس ان کی وجوہات اور آئندہ آگ سے بچانے کا کوئی حکمت عملی اور انتظام نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عملہ کم ہے اور جنگل زیادہ ہے۔
البتہ آزاد ذرائع نے بتایا کہ لوگ وقت سے پہلے چلغوزہ اتارنے کیلئے یہاں چپکے سے آتے ہیں اور اپنے لئے کھانے اور چائے بناتے وقت آگ کو جلتا چھوڑتے ہیں جو ہوا کی وجہ سے مزید پھیل جاتا ہے اور یوں جنگل میں آگ بھڑکنے کا باعث بنتا ہے اس سے اربوں روپے کا قیمتی تعمیراتی لکڑی جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
چترال گول نیشنل پارک چونکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے ممنوعہ علاقہ ہے جہاں کافی تعداد میں مارخور اور دیگر جنگلی جانور، چکور اور دیگر ناہاب پرندے اور درخت، اور چنبیلی کے پھول پائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگ غیر قانونی طور پر نہ صرف چوری چھپے لکڑی کاٹتے ہیں بلکہ مارخور کا شکار بھی کرتے ہیں اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ چند سال پہلے یہاں مارخور کا غیر قانونی شکار ہوا تھا جس پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس دوست محمد خان نے از خود نوٹس بھی لیا تھا۔
علاقے کے لوگ چترال گول نیشنل پارک میں آگ بھڑکنے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں کیونکہ یہاں چار قومی اثاتے پائے جاتے ہیں جن کی زندگی کو شدید حطرہ لاحق ہے۔
مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ان جنگلوں میں آگ پر قابو پانے کیلئے محکمہ جنگلات کو جدید مشینری فراہم کی جائے اور اگر ممکن ہو تو ان کو بجھانے کیلئے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا جائے تاکہ اربوں روپے کا قیمتی لکڑی یوں ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔