Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کے حکومتی اہلکار کا نوجوان پر تشدد: صدمے سے والد پر دل کا دورہ

اشکومن واقعہ


رپورٹ سمیر خان


اشکومن کے عوام سٹی پارک گاہکوچ میں احتجاج کر رہے ہیں۔ فوٹو: سمیر خان

گاہکوچ (غذر)  اشکومن  میں گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ  گلگت بلتستان کے رابطہ کار ظفر شادم خیل نے چھٹور کنڈ  تحصیل  دار کے آفس میں  ایک نوجوان علی رحمت کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کی  کوشیش کی۔  لوگوں نے مقامی تھانہ میں شکائت  درج  کرنے کی درخواست دی جس پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔جس پر عوام کے اندر شدید غم و غصہ  کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ اور وہ  سڑکوں پر نکل آئے اور پیر  کے روز ا گاہکوچ  میں ایک حتجاجی مارچ اور سٹی پارک میں جلسہ کیا جس سے مختلیف سیاسی رہنماوں نے خطاب کیا۔ مارچ میں  خواتین کی بڑی تعداد  بھی شریک ہوئے۔


علی رحمت جو ایک مقامی تنظیم آٹر زرعی سوسائٹی کے صدر ہیں، کے والد صوبیدار غیرت شاہ  اپنے اکلوتے بیٹے  پر قاتلانہ حملے  کی وجہ سے شدید ذہنی دباو میں تھے ۔ منگل ۲۱ ستمبر کی رات ان پر دل کا دورہ پڑا  اور انہیں سٹی ہسپتال گلگت کے  انتہائی نگہداشت وارڈ منتقل کیا گیا ہے۔ مسئلہ پیچیدہ ہونے کی وجہ سے انہیں بدھ کو  آغان یونیورسٹی ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا ہے۔

اس صورتحال  سے علاقے میں تنائو ہے اور لوگ  سراپا احتجاج  بنے ہوئے ہیں  اور  ریاست مدینہ کے دعوے داروں سے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن  یوں  لگتا ہے قانون اور اس کے نافذ کرنے والے ایک معمولی حکومتی  پارٹی کے کارندے کے سا منے بے بس ہیں۔

یہ اس بوسیدہ طبقاتی نظام جو ۷۴ سالوں سے پاکستان اور  اس کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے  اوپر  مسلط ہے ، کے چلانے والوں  کے  دوہرے میعار  اور منافقت کو   ظاہر کرتی ہے ۔   


حال ہی میں ہنزہ میں  ایک صحافی نے ایک   ڈی آئی جی  کی  زیر تربیت خواتین کو  مبینہ طور پر حراساں کرنے  کی خبر کو  ٹویٹ  کرنے  پر راتوں رات گرفتار کیا  اور دو دن تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا ۔ جبکہ  حکمران جماعت  کے  ضلعی عہدے دار  کا  ایک کمونٹی   تنظیم  کے صدر پر بہمانہ تشدد  اور جان سے مارنے کی دھمکی  دینے کے باوجود  گرفتار کرنا تو درکنار  ان کے خلاف شکائت تک درج نہیں ہوا۔

اس سلسلے میں بام جہان نے ڈپٹی کمشنر غذر ضمیر عباس سے ان کا  موقوف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک  تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کی  ہے جو  ایک ہفتے کے اندر اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی۔ اور اس کی روشنی میں مقدمہ درج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائیگا۔ کمیٹی اسسٹنٹ کمشنر گوپس شبیر حسین کی سربراہی اور دو ارکان، رحمت بیگ ایس ڈی پی او، اور اسپیشل برانچ کے سب انسپیکٹر علی زمان پر مشتمل ہے۔

ڈی سی عباس کا کہنا تھا کہ شادم خیل کے والد کے خلاف ایف آئی  آر درج ہو چکی ہے۔

سیاسی رہنماوں کا ردعمل

تاہم سیاسی و سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے تحقیقاتی کمیٹی کا مقصد وقتی طور پر لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا اور معاملات کو دبانا یا مصالحت کروانا ہے۔

سوال یہ پیدا  ہوتا ہے کہ ایک واقعہ سب کے سامنے ہوا، اور لوگوں  نے شادم خیل کو سوسائٹی کے صدر پر تشدد کرتے دیکھا ۔ اسے زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا  گیا جس کی میڈیکل رپورٹ بھی موجود ہونے کے باوجود نامزد لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟  

اس واقعہ میں ملوث ا فراد  کے خلاف   کاروائی  نہ کرنے پر گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی  رہنمائوں  اور کارکنوں نے  بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا  ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ  نامزد لوگوں کے خلاف فل فور مقدمہ درج کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ بصورت دیگر احتجاج پورے ضلعے میں پھیل جائیگی۔

ایک مقامی سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کوشیش کر رہی ہے کہ کسی طرح دونوں فریقوں کے درمیان مصالحت کرہں اور اور معاملہ کو رفع دفع کریں۔ ایک اور کارکن  نے کہا کہ  ظفر شادم خیل مسلح گارڈکے ساتھ دندھناتا   اور  سرعام  آتشیں اسلحہ لئے پھرتا ہے   اور لوگوں کو ہراساں کرتا ہے۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے انہین کچھ نہیں کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ شخص علاقے میں بد امنی کا باعث ہے ۔

 سابق وزیر اعلٰی  اور مسلم لیگ ن کے صدر حافظ حفیظ الرحمان نے اپنے ویڈیو پیغام میں اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ ضلعی انتظامیہ  اور پولیس اہلکاروں کی  ذمہ داری ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کریں  اور لوگوں  کو انصاف فراہم کریں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت ایک رابطہ کار کو گن مین فراہم کیا گیا ہے۔ ہمارے دور میں وزراء کو بھی  گن مین  اور اسلحہ رکھنےکی اجازت نہیں تھی۔  ان کا کہنا تھا کہ جب سلکٹیڈ حکومت پر امن احتجاج کرنے والوں کے شکایات کا ازالہ نہیں کر سکتی تو علاقے میں امن کا قیام کیسے ممکن بنائے گی۔ اس قسم کے روئے سے لوگ بغاوت پر مجبور ہوتے ہیں ۔  

انہوں نے  خبردار کیا کہ اگر  ظفر شادم خیل کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کیا  گیا تو وہ ڈی سی کے آفس کے باہر بھوک ہڑتال کریں گے اور  ریٹائرڈ فوجی گلگت میں ایف سی این اے کے سامنے دھرنا دیں گے ۔

  ہائی ایشیا ہیرالڈ  او ربام جہان سے بات کرتے ہوئے ان رہنمائوں نے موجودہ حکومت اور غذر انتطامیہ پر شدید تنقید کیا اور مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کیا جائے۔

 بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن و عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماٗء آصف ناجی  نے  اشکومن میں وزیراعلٰی  کے  نام نہاد کوآرڈینیٹر  کی عوام کے ساتھ غنڈہ گردی کی شدید مذمت کیں اور کہا کہ "سرکاری سطح پر لوٹ مار اور بے ضابطگیوں کے بعد پرائیویٹ سوسائٹیز پر كرپٹ عناصر کا شب خون مارنا اور سوسائٹی کے صدر کو  انتظامی آفسران کی مدد سے ہراساں کرنا انتہائی  افسوسناک  اور قابل مذمت  ہے”۔

انھوں  نے  مطالبہ کیا کہ  ایسے شر پسند عناصر کو علاقے کا امن خراب کرنے سے روکا جائے ورنہ شدید عوامی رد عمل کیلئے تیار ہو جائیں۔

 نیشنل ورکرز فرنٹ گلگت بلتستان کے رہنماٗ عنائیت بیگ  نے کہا کہ اشکومن کے عوام نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں بھاری تعداد میں احتجاجی دھرنے سے یہ ثابت کر دیا کہ وزیر اعلٰی کے تفویض کردہ کوآرڈینیٹر کی دہشت گردی سے خوفزدہ نہیں ہیں، بلکہ اسے مسترد کرتے ہیں اور اس کے مقابلے کے لئے پرعزم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی لڑکھڑاتی حکومت اگر ضلع غذر میں اپنی بچی کچی  ساکھ بچانا چاہتی ہے تو اس کیس میں انصاف کرے،  اور  ظفر محمد شادم خیل کو فوری طور پر اس کیس کے فیصلہ آنے تک کوآرڈینیٹر شپ سے ہٹایا جائے اور فی الفور شفاف تحقیقات کے ذریعے متعلقہ شخص کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

 مسلم لیگ ن  کے رہنماٗ عاطف سلمان   نے  اشکومن میں پیش آنے والے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کیں  اور کہا  کہ  گلگت بلتستان کے  وزیراعلٰی کے کوآرڈینٹر ظفر محمد شادم خیل  اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر  تشدد کرتا ہے اور پورے علاقے میں خوف و حراس پھیلایا ہوا ہے ۔

دائیں سے بائیں ظفر محمد شادم خیل رابطہ کار برائے وزیر اعلٰ ان کے دفتر میں۔

انہوں نے  حکومت اور  تمام قانون نافذ کرنے والوں اداروں سے اس کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔ ان  کا ماننا ہے کہ  ان کی دیکھا دیکھی  دوسرے  لوگ بھی  اپنی حفاظت کے لیے کلاشنکوف  لے  کر چلتے ہیں اس پرامن علاقے کے امن و خراب کرنے میں اسکا بہت بڑا ہاتھ ہیں۔  حکومت اگر اسکو فوری طور پر گرفتار نہیں کرتی  اہے اور  اسے  مذید چھوٹ دی گئی تو تمام تر حالات کی ذمہ دار ی حکومت وقت  پر  عائد ہو گی۔

اشکومن سے تعلق رکھنے والےسماجی کارکن اور لکھاری صاحب مدد  کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اپنے جعلی کوآرڈنیٹر کے کرتوت  جاننے کیلئے جلد از جلد ایک انکوائری کمیٹی بیٹھا دے تاکہ ان کے  عوام دشمن حرکات سے  انہیں واقیفیت  ہو   ۔ نہ کرنے کی صورت میں ہم یہ  سمجھیں  گے کہ  یہ سب کچھ  ان کی ایما پر ہو رہا ہے۔ 

اگر مزید  تاخیری حربے استعمال کیے گے تو ہم  سی ہاؤس  کے باہر دھرنے  کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔

ترقی پسند طلبا تنظیم نیشنل اسٹو ڈینٹس فیڈریشن گلگت بلتستان سندھ زون کے رہنماء اظہر الدین کا کہنا ہے کہ  ” آلہ کار اپنی اوقات بھول گیا ہے ۔ غذر کی زمینوں کو  غیر مقامی سرمایہ داروں کو بیچنے  میں سہولتکاری اور مقتدر حلقوں کے گماشتہ  کے  طور پر کام کر کے کمیشن سے گزارہ کرنے والا  آج غذر میں غنڈہ گردی کر رہا ہے۔

انہوں نے انتظامیہ کو خبردار کیا کہ وہ اس  بے لگام شخص  کو لگام دے اور انہیں  غذر کے پُرامن حالات کو خراب کرنے کی جرم میں گرفتار کیا جائے۔

انہوں نے وزیر اعلی گلگت بلتستان سے بھی مطالبہ کیا کہ  وہ فوری طور پر شادم خیل کو رابطہ کار  کے عہدے سے برطرف کر دیں۔

  دیامر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سماجی کارکن اور  صحافی  روشن دین دیامری  نے  کہا کہ وزیر اعلٰی کے کوآرڈینیٹر کی طرف سے اشکومن میں عوام پر تشدد کرنے اور دہشت پھیلانے کا واقعہ پہلی بار نہیں سن رہے ہیں۔   ان کا کہنا تھا کہ "ایسا لگتا ہے کہ اس شخص کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ ایسے شخص کو اہم عہدے تفویض کرنا انصاف سرکار کی بدنیتی کا پردہ چاک کرتی ہے۔”

انہوں نے  اشکومن کے عوام  کے ساتھ مکمل اظہار یک جہتی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ظفر شادم خیل کو  فوری طور پر     وزیر اعلیٰ کے رابطہ کار کے عہدے سے معطل کیا جائے  اور انہیں گرفتار کیا جائے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما وں نوید احمد ، ذاکر، واجد جمعہ  اور اختر امین نے بھی  اشکومن واقع  کی  پر زور مذمت کیں اور مطالبہ کیا کہ ایسے شر پسندوں کو فل فور گرفتار کرکے  قرار واقعی سزا دینا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے دلالوں  اور سہولتکاروں کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام گزشتہ ۷۴ سالوں سے نو آبادیاتی  ظالمانہ استحصالی  نظام میں جھکڑے ہوئے ہیں  اور اپنے  تمام تر بنیادی  انسانی حقوق سے محروم ہیں ۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ  ریاستی ادارے ایسے  عناصر کی   سرپرستی کرتے ہیں  اور ان کے ذریعے  مقامی سیاسی کارکنوں کو حراسان کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور مخبری کرنے  کے لئے  پالتے ہیں  اور خظے میں عوام  کوخوف زدہ کرتے ہیں ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے عناصر کو  عوام کے ٹیکسوں پر  پالنے  اور بد معاشی کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔  

 اشکومن کے ایک نوجوان  سیاسی کارکن اور  نیشنل ورکرز فرنٹ گلگت بلتستان کے رہنماء نے کہا کہ  گاہکوچ میں اشکومن کے باشعور عوام نے وزیر اعلٰئ کے کوآرڈینٹر کی غنڈہ گردی اور سینہ زوری کے خلاف اپنا احتجاج ریکاڈ کروا کر  یہ واضع پیغام دیا ہے کہ یہ غنڈہ گردی اور بدمعاشی مزید نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا ہے اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو ہم گلگت بلتستان سمیت  پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائنگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں