Land grabbing 200

پھنڈر میں زمینوں پر غیر مقامی لوگوں کا قبضہ اور حقیقت


تحریر: اظہر الدین



پھنڈر ضلع غزر کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے جو اپنے قدرتی حسن، شفاف پانی، ٹراوٹ مچھلی کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لیکن یہ علاقہ غیر مقامی سرمایہ کاروں کی زد میں ہے۔

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہے کہ پھنڈر کے لوگ  دھڑا دھڑ  اپنی زمینں  بیچ رہے ہیں۔ جہاں کچھ ساتھی اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں وہیں کچھ لوگوں کا یہ کہنا  ہے کہ  ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔اور سوال کرتے دکھائی دے  رہے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ کس نے اور کتنی زمین خریدی ہے۔

اسی حوالے سے میں نے بڑی تگ و دو کے بعد  کچھ  اعداد و شمار اکٹھا کیا ہے جو ریکارڈ کی درستگی اور صحیح صورتحال سے لوگوں کا آگاہ کرنے کی خاطر  یہاں   پیش کر رہا ہوں ۔

اگر ہم گلگت بلتستان میں زمینوں کی خرید وفروخت کی بات کریں تو شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں کسی غیر مقامی  سرمایہ کار نے  زمین نہ  خریدا ہو۔ ایسا لگتا ہے پورا علاقہ نیلامی کے لئے رکھا ہوا ہے ۔آدھا گلگت بلتستان ہم بیچ چکے ہیں اور باقی  جو کچھ بچا ہے اس کو بھی مہنگے داموں بیچنے میں لگے ہوئے  ہیں۔

اگر ہم حالیہ دنوں کی بات کریں تو بڑی تعداد میں غیر مقامیوں نے پھنڈر (غذر) میں مہنگے داموں زمینیں خریدی ہیں ۔

سب سے پہلے جن صاحب کا نام  سا منے آیا ہے  وہ ہے ایک  حاضر سروس  اعلیٰ آرمی آ ٓفیسر یوسف جمال ہیں  ۔ انہوں نے پھنڈر میں  تقریبا۳۶  کنال زمین خریداہے۔

دوسرے نمبر پر کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک گروپ ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک علی ہیں۔ اس گروپ نے بھی کوئی 36 کنال زمین خریدی ہے۔.

اس کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے بلوغ پھنڈر کے مقام پر 5 کنال  زمین خریدی ہے ی۔ مذکورہ شخص نے گلگت کے اندر بھی زمین خریدی ہے۔

ا انور آمان  جن کا تعلق چترال سے ہے جو امریکہ میں رہائش پذیر ہیں نے 45 کنال  زمین خریدا ہے۔

اس کے علاوہ جی بی سکاؤٹس کے کرنیل شریف ہے جن کا تعلق بھی چترال سے ہے ، نے سیربل پھنڈر میں 20 کنال کی زمین خریدی ہے۔

اس کے علاوہ بریگیڈیئر اسلم نے بھی 25 کنال کی زمین خریدی ہے۔اور ابھی جرنیل ہدایت اور بریگیڈیئر مل کر وہاں زمین خرید رہے ہیں جو کہ تقریباً فائنل و چکا ہے۔

یاد رہے یہ وہ تفصیلات ہے جو ہمیں مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے لوگ ہیں  جنھوں نے زمینیں خریدی ہے۔

آخر میں ہمیشہ کی طرح یہی گزارش ہو گی کہ خدارا پیسوں کے عوض اپنے دھرتی ماں کا سودا کرنے سے باز رہے۔ورنہ کل کو ہم غلاموں سے بھی بدتر زندگی جی رہے ہونگے۔


اظہر الدین ایک طالب علم کارکن اورنیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان سندھ زون کے رہنماٗ ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں