Baam-e-Jahan

"افغانستان پیپرز”


حبیب کریم


طالبوں نے ایک بار لغمان صوبے میں ایک پُل کو اڑا کر تباہ کیا۔ امریکی حکام نے دوبارہ تعمیر کے لیے ایک کنسٹرکشن کمپنی کو ٹھیکہ دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ کنسٹرکشن فرم کے مالک کا ایک بھائی طالب تھا۔ دونوں ملی بھگت سے کام کرتے تھے۔ ایک بھائی امریکی تعمیرات کو بمب سے اُڑاتا اور دوسرا بھائی ان کی دوبارہ تعمیر کے لیے امریکہ سے پیسے بٹورتا۔


یہ حقیقت ہے کہ جنگوں میں سب سے پہلے موت ”سچ“ کی ہوتی ہے۔ جھوٹ جنگوں میں سب سے اہم ترین ایندھن اور مؤثر ترین ہتھیار ہوتا ہے۔ اور بے پناہ تباہی و بربادی کے بعد جب جنگ کی سیاہ گھٹاؤں سے مطلع کچھ صاف ہونے لگتا ہے تو تب تک جھوٹ، سچ، فتح اور شکست اپنے مفاہیم کھو چکے ہوتے ہیں۔ بالخصوص دورانِ جنگ، ”جھوٹ“ کی حفاظت اور ”سچ“ کی موت قریب ہر جارح اور سپہ سالار کی بنیادی ترجیح رہی ہے۔ ایسا ہی کچھ چرچل نے کہا تھا؛
“In wartime, truth is so precious that she should always be attended by a bodyguard of lies.”

سقوط کابل سے چند دن قبل تک دنیا بھر کے سیاسی تھنک ٹینکس اور دفاعی تجزیہ کار تک یہ تسلیم کرنے کے لیے راضی نہ تھے کہ افغانستان میں امریکہ کے اربوں، کھربوں ڈالرز کی جنگی سرمایہ کاری یوں چشمِ زدن میں فنا ہو سکتی ہے۔ مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ تجزیہ کاروں اور دیگر دنیا کی اِس خوش فہمی کی ایک اہم ترین وجہ مسلسل بولا گیا وہ ”جھوٹ“ تھا، جس پہ اکثریت شعوری یا لاشعوری طور پر یقین کر بیٹھی تھی۔ جس دن افغانستان کی سرزمین سے آخری امریکی فوجی نے پاؤں اٹھایا، اُسی دن زیرِ نظر کتاب شائع ہوئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی کریگ وائیٹ لاک کی کچھ خفیہ و نیم خفیہ دستاویزات پر مشتمل اس کتاب کا مقصد اِسی جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی کوشش ہے۔

مصنف کے مطابق اِن بیس سالوں میں تمام امریکی صدور، جرنیل، بیوروکریسی وغیرہ اپنی عوام اور دنیا سے مسلسل جھوٹ بولتے رہے کہ ہم افغانستان میں جنگ جیت رہے ہیں، جبکہ حقیقت اس کی برعکس تھی۔ امریکہ آغاز سے انجام تلک افغانستان میں اپنے اہداف اور مقاصد کا تعین نہ کر سکا۔ صدر جارج ڈبلیو بش سے لے کر بائیڈن تک ہر امریکی صدر نے ایک جملہ ضرور دہرایا کہ افغانوں کی نیشن بلڈنگ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ مگر ہر امریکی صدر نے وہاں تعلیم، صحت، بجلی، روزگار کی فراہمی، انفراسٹرکچر، ادارہ سازی کی تشکیل اور منشیات و بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کانگریس سے اربوں ڈالرز منظور کرواۓ۔ اسامہ کا شکار دس سال قبل اہداف میں سے خارج ہو گیا تھا، مگر جنگ اور قومی تعمیر کے بیانیے شدت کے ساتھ ہماری نظروں کے سامنے موجود رہے۔

کتاب کا مصنف، کریگ وہائٹ لاک

مقامی سماجی نفسیات اور روایات سے ناآشنائی اور جہالت کا سامنا تاریخ میں ہر بیرونی حملہ آور کو کرنا پڑا ہے۔ یہی مسئلہ افغانستان میں واضح طور پر امریکہ کو پیش آیا۔ حتی کہ اپنے اصل حریف کو سمجھنے میں بھی امریکہ تا روزِ آخر تذبذب کا شکار رہا۔ سابق سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے برسرعام کہا تھا کہ؛
“No visibility into who the bad guys are.”
یعنی کہ واضح ہی نہیں کہ اتنے مسلّح گروہوں میں کس کو مارنا ہے۔ کس وار لارڈ کو سنبھالنا ہے اور کِسے ختم کرنا ہے۔ کونسے ڈرگ ڈیلر کو اپنا حریف سمجھنا ہے اور کِس کو ہمنوا۔ کس مسلّح گروہ کو طالب سمجھنا ہے اور کِسے نہیں۔

افغان ثقافت اور اجتماعی سماجی نفسیات سے ناواقفیت کی بنا پر امریکی افواج نے افغانستان میں کئی ایسی فاش غلطیاں کی کہ جس کا سٹریٹجک بنیادوں پر انہیں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ افغانستان میں مغربی جمہوری اصولوں کے بیانیوں کے متعلق عوامی حمایت کے حصول کے لیے مختلف ترکیبیں سوچی گئیں، اور ان کی تشہیر کی گئی، مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔ بالآخر، ایک بار امریکی سفارت خانے کو ایک انوکھی ترکیب سوجھی تو افغانستان میں فٹبال کی مقبولیت کو دیکھ کر بچوں کے لیے فٹبال ڈیزائن کیے گئے۔

ایک ہزار سے زائد فٹبال تقسیم کیے گئے۔ ان فٹبالز پر افغانستان کے جھنڈے کے ساتھ ”امن اور اتحاد” کے الفاظ پشتو اور دری میں لکھے گئے۔ بگرام بیس کے فوجی حکام نے اسے بڑی کامیابی قرار دی۔ اس کامیابی کو جانچنے کے لیے ایک دن بگرام بیس کے کمانڈر میجر جنرل جیسن کامیا نے ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔ اس نے ”امن اور اتحاد“ کے ان فٹبالز میں سے کچھ ہموی جیپ میں رکھے اور پکتیکا کی طرف اپنے فوجی کاروان کے ساتھ روانہ ہوا۔ کچھ بچے گاڑی کے گرد پا کر اس نے ایک بال باہر پھینکا تو کیا دیکھا کہ فٹبال ملتے ہی بچوں نے کِکس مارنی شروع کیں اور کسی بچّے نے بھی اس پر جلّی حروف میں لکھے ”امن اور اتحاد“ کے فقرے کو درخور اعتنا نہیں جانا۔ میجر جرنل کو تجربے کا نتیجہ مل گیا اور مایوس لوٹا۔

اگلی بار مختلف ممالک کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا کلمہ سے مزیّن جھنڈا بھی فٹبال پر ڈیزائن کیا گیا۔ یہ فٹبال ہیلی کاپٹرز سے نیچے گراۓ گئے تو افغان عوام کے لیے بمب سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوۓ۔ احتجاجات ہوۓ اور امریکہ کو عوامی سطح پر مجبوراً معذرت کرنی پڑی۔ ایک بار فروری 2012 میں بگرام ائیر بیس پر امریکی اہلکاروں نے قرآن کریم کے اوراق کو آگ لگا کر ایک بار پھر عوامی غم و غصے کو دعوت دی۔

سقوط کابل سے چند دن قبل تک دنیا بھر کے سیاسی تھنک ٹینکس اور دفاعی تجزیہ کار تک یہ تسلیم کرنے کے لیے راضی نہ تھے کہ افغانستان میں امریکہ کے اربوں، کھربوں ڈالرز کی جنگی سرمایہ کاری یوں چشمِ زدن میں فنا ہو سکتی ہے۔ مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا۔

ایک طرف ہزاروں عام شہریوں کے قتال اور امریکہ کی مقامی سماجی نفسیات سے جہالت نے امریکہ اور افغان حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کو بڑھاوا دیا، تو دوسری جانب خود افغان حکومت کی نا اہلی ہر طرف منہ چڑا رہی تھی۔ افغان فوج میں بھرتی کیے گئے اہلکار و افسران کی اسّی سے نوّے فیصد تعداد کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ حتی کہ مصنف کے مطابق کچھ کو تو گنتی تک نہیں آتی تھی۔ مقامی زبانوں میں ان کی تربیت کے لیے کثیر تعداد میں ترجمانوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ اکثر اہلکار پہلی تنخواہ لینے کے بعد غائب ہو جاتے تھے۔ جو دوران تربیت آتے تھے، وہ بغیر یونیفام کے پہنچ جاتے کیونکہ اپنا یونیفام اور دیگر سامان انہوں نے بازار میں بیچ دیا ہوتا۔

افغان کمانڈرز نے گھوسٹ ملازم بھرتی کر رکھے تھے، جو کہ صرف فائلز اور کاغذات میں وجود رکھتے تھے تا کہ وہ تنخواہوں کی صورت میں کئی ملین ڈالرز اپنی جیبوں میں ٹھونس سکیں۔ اوبامہ کے دوسرے دورِ صدارت کے اختتام تک امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ تیس ہزار سے زائد افغان فوجی صرف کاغذات پر اپنا وجود رکھتے تھے اور ان کی تنخواہیں کمانڈرز کی جیب میں جاتی تھیں۔ ملٹری پے رول سے یہ تمام نام نکال دئیے گئے۔

ایک سال بعد پولیس سے بھی ایسے تیس ہزار گھوسٹ پولیس افسران کے نام نکال دئیے گئے جو حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے تھے۔ پولیس اہلکاروں کی ایک تہائی سے زائد تعداد منشیات فروشوں اور طالبان پر مشتمل تھی۔ ایسے ہزاروں پولیس اہلکاروں کے بارے میں ریپورٹس آئیں کہ وہ سرکاری اسلحہ لے کر فرار ہو گئے اور لوگوں کو لُوٹنے اور ان سے بھتہ وصولی کے لیے اپنی پرائیویٹ چیک پوسٹس قائم کیں۔

وار لارڈز سے بھرے حکومت اور بیوروکریسی میں بدعنوانی کی ایسی داستانیں مصنف نے لکھی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ 2010 کے کابل بینک سکینڈل میں اربوں ڈالرز غبن کے انکشافات میں امریکی کٹھ پتلی حامد کرزئی اور اس کے وار لارڈ، نائب صدر فہیم خان سرفہرست نظر آۓ۔ 633 ملین ڈالرز فراڈ قرضوں کی صورت میں کابل بینک سے غائب کیے گئے۔

طالبوں نے ایک بار لغمان صوبے میں ایک پُل کو اڑا کر تباہ کیا۔ امریکی حکام نے دوبارہ تعمیر کے لیے ایک کنسٹرکشن کمپنی کو ٹھیکہ دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ کنسٹرکشن فرم کے مالک کا ایک بھائی طالب تھا۔ دونوں ملی بھگت سے کام کرتے تھے۔ ایک بھائی امریکی تعمیرات کو بمب سے اُڑاتا اور دوسرا بھائی ان کی دوبارہ تعمیر کے لیے امریکہ سے پیسے بٹورتا۔

افغان افسران اور اہلکاروں کی امرد پرستی سے امریکی فوجی بے حد تنگ آ چکے تھے۔ نوّے فیصد امریکی امرد فوجی جن کے خط نہیں نکلے تھے تو نوخیز نظر آنے کی وجہ سے اہم شکار بن جاتے تھے۔ ایک امریکی فوجی افسر میجر وڈرنگ کے بڑے تلخ، کاٹ دار اور حقیقت بر مبنی الفاظ مصنف نے لکھے ہیں کہ؛
”امریکی فوجیوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی مشکل تھی کہ کس طرح افغان مرد خواتین کے بارے میں انتہائی سخت اور قدامت پسندانہ خیالات رکھتے ہیں، جبکہ دوسرے مردوں کے ساتھ فلرٹنگ اور جنسی تعلق قائم کرنے سے خود نہیں ہچکچاتے۔“

اگرچہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب وائٹ لاک نے امریکی قارئین کے تناظر میں لکھی ہے اور زیادہ تر امریکی ریاست کی دروغ گوئیوں سے پردہ اٹھایا ہے، مگر افغانستان کے مطالعے سے دلچسپی رکھنے والے ہر طالب علم چاہے تو اسے پڑھ سکتا ہے۔ ایسے کئی اور واقعات بھی درج ہیں جن کی سند پر پڑھنے والے کو شک و شبہ ہو سکتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر ایک قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔

حبیب کریم کا تعلق بلوچستان کے علاقے خاران سے ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کا طالب علم ہیں۔ ادب، سیاست، فلسفہ اور تاریخ سے شغف رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں